امریکا میں رائے عامہ کے نئے جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ صدر جوزف بائیڈں پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو برتری ضرور حاصل ہے تاہم یہ برتری کسی بھی اعتبار سے فیصلہ کن نہیں۔
صدارتی انتخاب میں کم و بیش آٹھ ماہ باقی ہیں اور پانسا کسی بھی وقت پلٹ سکتا ہے۔ صدر بائیڈن کے دو تین بڑے اقدامات ووٹرز کا اعتماد بحال بھی کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے انہیں بہت محنت کرنا پڑے گی۔
امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق صدر بائیڈن کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صدارتی انتخاب کے حوالے سے اب تک کوئی بڑا منصوبہ طشت از بام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بعض معاملات میں انہیں فوری اور انقلابی نوعیت کے اقدامات کرنا ہیں مگر وہ ہچکچارہے ہیں۔
چین کے ابھرتے ہوئے خطرے کا سامنا کرنے کے لیے صدر بائیڈن کوئی ایسا اعلان کرسکتے ہیں جو ٹرمپ کی مقبولیت پر اثر انداز ہو۔ ٹرمپ روس کے حامی رہے ہیں۔
یوکرین پر روسی لشکر کشی کے نتیجے میں امریکا کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ ٹرمپ نے اب تک روس کے معاملے میں اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔
تارکین وطن کے حوالے سے پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی بھی ووٹرز کو جو بائیڈن کی طرف دیکھنے کی تحریک دے سکتی ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے نے امریکی معاشرے کو بحرانی کیفیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے واضح اقدامات ناگزیر ہیں۔
یوکرین کی جنگ کے خطرناک نتائج اور روس کے لیے ٹرمپ کے دل میں نرم گوشے کو بنیاد بناکر صدر بائیڈن اپنی انتخابی مہم میں جان ڈال سکتے ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ چین کو بھی ہوا بناکر پیش کرسکتے ہیں مگر اس حوالے سے ان کی ٹیم تیاریاں کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔
ممکنہ ووٹرز کے سروے میں ٹرمپ کو 42 کے مقابلے میں 45 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ غیر جانب دار ووٹرز کے تجزیے میں اُن کی برتری 11 پوائنٹس کی ہے۔