یونان سے پاکستانیوں کی جبری ملک بدری (ڈیپورٹیشن) زور پکڑ گئی۔ جنوبی یورپی ممالک میں جبری ڈیپورٹیشن میں یونان چوتھا ملک بن گیا۔
یونان سے ہمارے نمائندے جاوید بلوچ کی رپورٹ کے مطابق یونان سے پاکستانیوں کی ملک بدری جاری ہے۔ گزشتہ رات یونان کے دارالحکومت ایتھنز سے پاکستان سے 40 اور جارجیا کے 10 باشندوں کو پناہ کی درخواستیں اور اپیلیں مسترد ہونے کے بعد ڈیپورٹ کردیا گیا۔
یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں جبکہ آج کے نمائندے کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق مختلف کیمپوں سے 200 پاکستانیوں کو گزشتہ رات ڈیپورٹ کیا گیا۔
یونان کی تارکین وطن اور سیاسی پناہ کی وزارت کے مطابق اب یونان میں صرف وہی لوگ رہ سکتے ہیں جن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہوچکی ہیں۔
یورپ کے جن ممالک نے سیاسی پناہ کی درخواستوں کی جانچ پڑتال کا عمل تیز کردیا ہے ان میں اب یونان بھی شامل ہوگیا ہے۔
یونان کے حکام نے سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے پر پاکستانیوں سمیت بہت سے غیر ملکیوں کو نکال رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یورپ کے متعدد ممالک سے حال ہی میں ہزاروں تارکین وطن کو نکالا گیا ہے۔ بعض ممالک میں اس حوالے سے انتہائی سخت پالیسی اپنائی گئی ہے۔ شمالی افریقا سے پہنچنے والوں کو فرانس اور چند دوسرے ممالک میں قدرے آسانی سے سیاسی پناہ مل جایا کرتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہے۔
یوکرین کی جنگ کے بعد یورپی نسل کے پناہ گزینوں کی آمد بڑھنے سے دیگر خطوں اور نسلوں کے لوگوں کے لیے یورپ کی زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔ فرانس، جرمنی اور یونان میں اس حوالے سے پالیسی تبدیل ہوچکی ہے۔
غیر یورپی نسلوں کے لوگوں کے لیے یورپ بھر میں نفرت کی لہر بھی جاری ہے۔ مشرقی یورپ کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے باعث مغربی یورپ کے ممالک پر پناہ گزینوں کے حوالے سے بڑھتا ہوا دباؤ ایشیا، افریقا اور جنوبی امریکا سے آنے والوں کا خیرمقدم نہیں کیا جارہا۔