نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے میٹرک بورڈ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی، انکوائری کمیٹی کی جانب سے بورڈ کے قصوروار افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
کمیٹی کی جانب سے بتایا گیا کہ تحقیقات کے دوران کوئی بھی ملازم بیان دیتے وقت سنجیدہ نہیں پایا گیا، جبکہ قائم مقام کنٹرولر امتحانات مسٹر عمران کا بیان غیر سنجیدہ قرار دے دیا۔
کمیٹی کا کہنا تھا کہ کوئی بھی نہیں بتا سکا کہ اصل نتیجہ کیا ہے اور کتنی تبدیلیاں ہوئیں، اعلانیہ نتائج سے موازنے کیلئے اصل ریکارڈ کمیٹی کو فراہم نہیں کیا گیا جبکہ کمیٹی نے واضح کیا کہ نتائج میں ہیراپھیری کے دوران ڈپٹی کنٹرولر خالد احسان عہدے پر تھے۔
چیئرمین بورڈ نے بتایا کہ خالد احسان کا تعلق نتائج کے عمل سے براہ راست وابستہ ہے۔ جبکہ کمیٹی کی جانب سے بتانا تھا کہ مسٹر خالد کو بطور ممبر تحقیقاتی کمیٹی بھی مقرر کیا گیا ہے۔
دوسری جانب بورڈ آفس کے آئی ٹی ونگ سے متعلق بتایا گیا کہ میٹرک بورڈ کے آئی ٹی ونگ/کمپیوٹر ونگ کو بورڈ انتظامیہ نے یکسر نظرانداز کر دیا ہے، میٹرک بورڈ کی اس غفلت کے باعث ہر طرح کی ہیراپھیری و بدانتظامی شروع ہو گئی، طلباء نے گزشتہ سال پرانے سافٹ ویئر کے تحت داخلہ لیا تھا۔
کمیٹی کے مطابق نئے سافٹ ویئر نے اس سال شائع مضامین کے کل نمبروں کا حساب لگا کر گزٹ میں شامل کیا، دو سافٹ وئیر کے مماثلت نہ ہونے کے باعث مزید گریڈ گریس کو بھی گزٹ میں شامل نہیں کیا گیا، میٹرک بورڈ میں او ایم آر سسٹم پہلی بار متعارف کرایا گیا ہے۔
جبکہ اساتذہ سے متعلق کمیٹی کا کہنا تھا کہ امتحانی پرچوں کی جانچ میں شامل اساتذہ کو کوئی تربیت نہیں دی گئی، تربیت نہ ہونے کے نتیجے میں بڑی تعداد میں غلطیاں سامنے آئی ہیں، نئے سسٹم سے پہلے کمپنی اور بورڈ انتظامیہ کو عملے کی مکمل تربیت کرانی چاہیے تھی۔
کمیٹی کی رپورٹ کا میٹرک بورڈ آفس سے متعلق کہنا تھا کہ میٹرک بورڈ انتظامیہ اس مسئلے کو حل کرانے میں ناکام رہی اور کمیٹی کو مطمئن نہیں کرسکی، اسکیموں کے ریکارڈ پر عملدرآمد کیلئے مناسب مکمل گزٹ دستیاب نہیں تھا، اکثر طلباء کو مارک شیٹ کیلئے کئی بار چکر لگانا پڑتے ہیں۔
نگراں وزیر اعلٰ سندھ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی نے واضح کیا کہ امتحانی ٹیم بشمول کنٹرولر، ڈپٹی کنٹرولر، اسسٹنٹ، آئی ٹی ٹیم غلطیوں کیلئے ذمہ دار ہے، مزید تحقیقات کیلئے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ وغیرہ کے ذریعے کرائی جاسکتی ہیں۔
دوسری جانب عملے سے متعلق کمیٹی کا کہنا تھا کہ عملہ ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہا ہے، یوں معلوم ہو رہا ہے کہ وہ نتائج کے لیے پیشہ ورانہ طور پر ذمہ دار نہیں ہیں، ایگزامینیشن برانچ میں ایسا عملہ ہے جو انکوائری کے دوران غیر معمولی اور لاپرواہ ہے۔
کمیٹی کی جانب سے اپنی فائنڈنگز میں کہنا تھا کہ چیئرمین بورڈ اصلاحات لانے اور پرانے و نئے سسٹم کو چلانے میں ناکام رہے، چیئرمین بورڈ کی لاپرواہی سے تالیف و اشاعت اور مجموعی کارکردگی کو نقصان پہنچا۔
جبکہ اپنی تجویز میں کمیٹی کا کہنا تھا کہ تمام مجرم افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی ضرورت ہے، بورڈ انتظامیہ کے کچھ عناصر بنیادی طور پر امتحانات پر اثرانداز ہوئے ہیں، بیرونی خدمات کے ذریعے پورے امتحان میں اوور ہال کی ضرورت ہے، نئی بھرتیوں اور عملے کی تربیت زیادہ ضروری ہے۔
جبکہ مزید تجاویز دیتے ہوئے کمیٹی نے بتایا کہ کرداروں اور ذمہ داروں کا چیک اینڈ بیلنس کے ساتھ احتساب کرانا ہوگا، کنٹرولر آف ایگزامینیشن اہم عہدہ ہے اس لیے بہترین افسر کو یہ کام سونپا جائے۔