کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو اور انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل اکنامک گروتھ کے چیئرمین رچرڈ ڈبلیو رہن کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ایران کے پاس پانچ نیوکلئیر بم ہیں اور مئی تک ان کی تعداد ایک درجن تک ہو سکتی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ”واشنگٹن ٹائمز“ میں لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں رچرڈ نے لکھا کہ گزشتہ اکتوبر کے اوائل میں انٹیلی جنس اندازوں میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران کے پاس ایک ہفتے کے اندر ایک بم بنانے کے لیے اور چھ ہفتوں کے اندر پانچ نیوکلئیر بموں کے لیے کافی افزودہ ہتھیاروں کے درجے کا یورینیم ہو سکتا ہے۔
ان تخمینوں کو تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
رچرڈ کا کہنا ہے کہ ایرانی شاید اس وقت تک نیوکلئیر بم پاس ہونے کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیں گے جب تک کہ ان کے پاس مختلف مقامات پر ایک درجن یا اس سے زیادہ آپریشنل بم موجود نہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ایک بم کا اعلان کرنا بے وقوفی ہوگی، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل اسے ڈھونڈنے اور تباہ کرنے کے لیے کافی کوششیں کریں گے، لیکن زیادہ مقامات پر زیادہ بم اس ”تباہی“ کی کوشش کو اگر تقریباً ناممکن نہیں تو پیچیدہ ضرور بنا دیتے ہیں۔
رچرڈ کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو ایرانی بموں کے وجود کو چھپانے یا ظاہر نہ کرنے کے لیے ایک مضبوط وجہ حاصل ہے، کیونکہ صدر بائیڈن کی جانب سے کئی برسوں کے دوران ایرانیوں کو نیوکلئیر بم رکھنے کی اجازت نہ دینے کے بار بار وعدے کیے گئے تھے۔
باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے وقت اسی طرح کے وعدے کیے تھے۔
اگر بائیڈن انتظامیہ ایرانی بم کی موجودگی کو تسلیم کرتی ہے تو صدر پر کارروائی کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔
رچرڈ کے مطابق اسرائیلیوں نے بھی عہد کیا ہے کہ وہ ایران کو بم رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے، اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اگر ایران کے پاس بہت سے ایٹمی بم ہیں تو اس کا مطلب اسرائیل کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
رچرڈ کا کہنا ہے کہ قبل ازیں، یہ فرض کیا گیا تھا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس اتنی اچھی ہے کہ ایرانی بم کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کے بارے میں خبردار کر سکتی ہے اور اسے تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ ماضی میں پروڈکشن اور ریسرچ کی سہولیات کو تباہ کر کے، ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر دونوں کو سبوتاژ کر کے، اور کلیدی سائنسدانوں کو قتل کر کے ایرانی بم پروگرام میں تاخیر کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
ایرانیوں نے یقیناً ان سابقہ نقصانات سے سبق سیکھا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں کہ ان کی سابقہ کمزوریاں کم ہوں۔
اب، یہ سوال یہ ہے کہ موساد (اسرائیلی انٹیلی جنس) کتنی قابل ہے، جبکہ اسے 7 اکتوبر کے حماس حملے کی پیشگوئی کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسرائیلی موجودہ حالت جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے پاس ایرانی نیوکلئیر پروگرام کو ختم کرنے کیلئے بہت کم ریسورسز ہیں، اس لیے اسرائیلیوں کے پاس ایرانی نیوکلئیر بم کا اعلان کرنے کی بہت کم گنجائش بچتی ہے۔
میڈیا اکثر ویپن گریڈ یورینیم کی مقدار کا حوالہ بموں کی تعداد کی پراکسی کے طور پر دیتا ہے۔
نیوکلیئر بم کئی سائز میں تیار کیے جاتے ہیں۔ کوئی ملک اہداف اور مقاصد کے لحاظ سے بڑی تعداد میں کم طاقتور بم یا کم تعداد میں زیادہ طاقتور بم بنا سکتا ہے۔
جاپان کے ہیروشیما کو تباہر کرنے لائق جوہری بم صرف 16 کلو (35 پاؤنڈ) انتہائی افزودہ یورینیم کا استعمال کرتے ہوئے بنایا جا سکتا ہے۔ بڑے بم کے لیے زیادہ اور چھوٹے کے لیے یہ مقدار کم ہوتی ہے۔
ایک نیوکلئیر بم بنانے میں صرف افزودہ یورینیم سے کہیں زیادہ چیزوں اور ریسورسز کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اسے ضروری دھاتی شکلوں میں ڈھالا جا سکے۔ یورینیم کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا بنانے کے لیے ایک طاقتور روایتی دھماکہ خیز مواد اور الیکٹرونک متحرک آلات کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ سب کچھ سیکنڈ کے ایک حصے میں ہو سکے۔
ایک نیوکلئیر بم کی انجینئرنگ کے لیے اعلیٰ سطح کی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن امریکی انجینئرز 1945 میں ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، اور ضروری معلومات گزشتہ 80 سالوں میں سات معروف نیوکلئیر ریاستوں سے لیک ہو چکی ہیں۔
ایرانیوں کے پاس اول درجے کے طبیعیات دان اور انجینئر ہیں، اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کافی وقت اور وسائل کے ساتھ اس کام کو پورا کر سکتے ہیں۔
ایک ملک کیلئے صرف بم بنا لینا کافی نہیں بلکہ انہیں ڈیلیوری کے لیے تیار بھی کرنا ہوتا۔ ایک خام بم شاید ایک چھوٹے ٹرک میں شہر کے مرکز میں اسمگل کیا جا سکتا ہے۔ ایک بم جہاز یا آبدوز میں چھپایا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا بم جسے میزائل میں ڈالا جا سکتا ہے، پہنچایا جا سکتا ہے اور عین جگہ پر دھماکہ کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے انجینئرنگ کی زیادہ مہارت ہوتی ہے، لیکن ان میں سے ایسا کچھ بھی نہیں جو ایرانی مہارت سے باہر ہو۔
رچرڈ کا کہنا ہے کہ ہمارے خیال میں جو کچھ ہم جانتے ہیں اس کے پیش نظر یہ ممکن ہے کہ مئی تک ایرانیوں کے پاس ایک درجن سے زیادہ آپریٹو بم ہوں گے۔ اُس وقت، بڑے آرام سے دنیا کے سامنے اس کا اعلان کر سکتے ہیں اور، شاید، اس بات کو ثابت کرنے کے لیے زمین کے اندر دھماکہ بھی کریں۔
رچرڈ کا کہنا ہے کہ ایرانی یقینی طور پر جو بائیڈن کے صدارتی دور میں ہی اپنے بم کا اعلان کرنا چاہیں گے کیونکہ انہیں بائیڈن کی کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا علم ہے، وہ ٹرمپ کے اقتدار میں آںے کا انتظار نہیں کریں گے۔
ایران اور دیگر تمام ایٹمی طاقتیں انشورنس پالیسی کے طور پر ہر ماہ مزید بم بنا رہی ہیں، امریکہ اور روس میں اسے تجدید کاری کہا جارہا ہے۔
اگر، اب سے دو سال بعد، دونوں اسرائیل (جس کے پاس کئی دہائیوں سے نیوکلئیر ذخیرہ موجود ہے) اور ایران ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لیے کافی بم رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تو اس صورت حال کا تصور کرنا ممکن ہے جیسا کہ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور روس کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔