بھارت کے کسان دہلی کی طرف مارچ کر رہے ہیں، اور اس بار وہ پوری تیاری کے ساتھ آرہے ہیں۔
بھارت میں کسانوں کی جانب سے مودی سرکار کے فیصلوں کے خلاف احتجاج جا ری ہے اور اس احتجاج کے پہلے مرحلے میں کسانوں نے پتنگوں کے زریعے نگرانے کرنے والے اور آنسو گیس کے شیل فائر کرنے والے ڈرونز کو گرایا، اور اب دوسرے مرحلے کیلئے مظاہرین نے خود کو مزید اپ گریڈ کر لیا ہے۔
اس بار کسانوں کے پاس بکتر بند ٹریکٹر، دھاتی شیلڈز، انڈسٹریل گیس ماسک، تیراکی والے چشمے اور ریت سے بھرے جوٹ کے تھیلے موجود ہیں۔
شمبھو بارڈر پر تقریباً 14 ہزار کسان اپنے ”چلو دلی“ مارچ کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، جن میں 1200 سے زیادہ ٹریکٹر ٹرالی، 300 کاریں اور 10 منی بسیں شامل ہیں۔
14 فروری کو جب کسانوں نے دہلی کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس سے پہلے پنجاب-ہریانہ سرحد پر پتنگیں، ملتانی مٹی اور گیلے جوٹ کے تھیلے جیسے مختلف جگاڑ استعمال کیے تھے تاکہ پولیس کے آنسو گیس چھوڑنے والے ڈرون کے استعمال کا مقابلہ کیا جا سکے۔
بھارتی کسانوں نے دیگر مطالبات کے علاوہ، کم از کم قیمت فروخت (ایم ایس پی) کے لیے قانونی حمایت کے مطالبے پر مرکزی حکومت کے ساتھ کئی دور کی بات چیت کی ناکامی کے بعد دارالحکومت تک اپنا مارچ دوبارہ شروع کرنے کے لیے کمر کس لی ہے۔
ہریانہ، پنجاب اور دہلی کی پولیس نے بھی اسی مناسبت سے تیاریاں کی ہیں۔ ہریانہ پولیس نے پنجاب کو ہریانہ سے جوڑنے والی شاہراہ پر پتھر، کنٹینر اور خاردار تاریں لگا دی ہیں۔
ہریانہ پولیس نے ہیوی ڈیوٹی انڈسٹریل گریڈ گاڑیاں (پوکلین اور جے سی بی) بھی تعینات کی ہیں۔
اسی مناسبت سے کسانوں نے بھی دہلی کی طرف مارچ کرنے کی ٹھوس تیاری کی ہے۔
کسانوں نے پتنگیں اڑائیں تاکہ آنسو گیس چھڑکنے والے ڈرونز کو ان میں پھنسایا جائے، آنسو گیس کی وجہ سے ہونے والی جلن کو ختم کرنے کے لیے چہروں پر ملتانی مٹی کا پیک لگایا، اور 14 فروری کو ان پر فائر کیے گئے آنسو گیس کے شیلوں سے بچنے کیلئے جوٹ کے گیلے تھیلے استعمال کیے گئے۔
تاہم، سکیورٹی اہلکاروں نے مارچ کرنے والے کسانوں کو پنجاب تک محدود رکھا۔
پیر (19 فروری) کو، کسان رہنماؤں نے فصلوں کے لیے کم از کم قیمت فروخت کے لیے مرکز کے نئے منصوبے کو مسترد کیا اور بدھ سے اپنا ’دہلی چلو‘ مارچ دوبارہ شروع کیا تھا۔
کسان کافی عرصے سے اس احتجاج کی تیاری کر رہے تھے، انہوں نے دوبارہ پولیس کی تیاریوں کا نوٹس لینے کے بعد اپنے مزاحمتی ہتھیاروں کو تقویت دی۔
ٹریکٹروں کو رکاوٹوں اور پتھروں کو کھینچنے اور ہٹانے کے لیے استعمال کے لائق بنا دیا گیا ہے، کچھ ٹریکٹروں پر ڈرائیور کی جگہ کو بھی دھاتی شیلڈ سے ڈھانپ دیا گیا ہے تاکہ ڈرائیور کو لاٹھی چارج کی صورت میں محفوظ رکھا جا سکے۔
کسانوں نے ٹریکٹر کے اگلے حصے پر لوہے کی سلاخوں سے بنے بمپر بھی لگائے ہیں۔
یہاں تک کہ ارتھ موور (بھاری سامان اٹھانے والی کرینوں) کو بھی تیار کیا گیا ہے۔ ڈرائیور کا کیبن جو عام طور پر شیشے سے بنا ہوتا ہے، اس کی جگہ لوہے کے کیبن نے لے لی تھی، جو ڈرائیور/آپریٹر سمیت چند لوگوں کے بیٹھنے کے لیے کافی تھی۔
لوہے کے کیبن میں گرلڈ سی تھرو بھی ہے جو آپریٹر کے لیے کھڑکی کا کام کرتا ہے۔
ہریانہ پولیس تبدیل شدہ بھاری سازوسامان پر فکر مند ہے اور اس نے منگل (20 فروری) کو امن و امان کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے پنجاب پولیس سے بلڈوزر اور دیگر بھارری مشینری شمبھو بارڈر سے ضبط کرنے کی تاکید کی ہے۔
صرف مشینری ہی نہیں، کسان ذاتی ہتھیاروں سے بھی لیس ہیں۔ کئی احتجاجی کسان آنسو گیس، آنے والے چھروں، خاردار تاروں، کنکریٹ کی تنصیبات اور سرحد پر دھول اور گیس سے بچنے کے لیے صنعتی ماسک، تیراکی کے چشمے، سواری کے چشمے اور لیٹیکس دستانے پہنے ہوئے دیکھا گیا۔
ٹریکٹروں سے منسلک کئی ٹریلرز کو بھی ریت کے تھیلوں سے لدے دیکھا گیا، ریت کے تھیلوں کو فوجیں میدانی قلعہ بندی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اگر پولیس نے لاٹھی چارج کا حکم دیا گیا تو اس کیلئے کچھ کسانوں نے تعمیری چنائی میں استعمال ہونے والی دھاتی تگاریوں کو ڈھال میں تبدیل کر دیا ہے۔
موٹر سائیکل سواروں کے لیے بنائے گئے چیسٹ اور گھٹنے کے گارڈز اور فوم سے بنے ایئر پلگ بھی کچھ کسان استعمال کر رہے ہیں۔
ان جگاڑوں سے لیس کسان پولیس کے ساتھ تصادم کے لیے تیار ہیں۔