سپریم کورٹ نے ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کو کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواست خارج کرتے ہوئے درخواستگزاربریگیڈیئر (ر) علی خان کو عدم پیشی پر 5 لاکھ روپے کا جُرمانہ عائد کردیا۔ چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما شوکت بسرا کو بولنے سے روک دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔
درخواست گزارعلی خان 19 فروری کوہونےوالی اس کیس کی پہلی سماعت پر بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔ عدم حاضری پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو حکم دیا تھا کہ وہ درخواست گزار کو پکڑ کرعدالت میں پیش کریں۔رجسٹرار آفس سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ درخواست گزار سے رابطہ کرے۔
آج سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ علی خان کےگھرپولیس بھی گئی اور وزارت دفاع کے ذریعے نوٹس بھی بھیجا، وہ گھر پرنہیں ہیں اس لیے نوٹس ان کے گیٹ پرچسپاں کردیا گیا ہے۔
چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ سابق بریگیڈیئر ہیں جن کا 2012 میں کورٹ مارشل ہوا تھا۔ اس وقت جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویزکیانی آرمی چیف تھے۔
چیف جسٹس نے بتایاکہ سپریم کورٹ کودرخواست گزار کی ای میل موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا کہ ملک سے باہر ہوں ،ای میل میں بورڈنگ پاس،ٹکٹ اوربحرین جانے کے تمام سفری دستاویزات بھی منسلک کی گئی ہیں۔ درخواستگزار نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ جس کا کورٹ مارشل ہوا ہو وہ بریگیڈیئر کا رینک استعمال نہ کرے، سب نے مل کر سپریم کورٹ کو مذاق بنایا ہوا ہے۔ عدالت کا غلط استعمال ہو رہا ہے، ملک کو دنیا کے لیے جگ ہنسائی کا سامان بنا دیا گیا، درخواست دائر کرکے پبلسٹی اسٹنٹ کھیلا گیا۔
اس دوران عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما شوکت بسرا روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے پوچھاکہ کیا آپ علی خان کے وکیل ہیں؟ اس پر شوکت بسرا بولے کہ نہیں وکیل نہیں لیکن اس کیس میں پیش ہونا چاہتا ہوں ۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی رہنما کو بیٹھنے کی ہدایت کی تو شوکت بسرا نے کہاکہ میں بھی ہائیکورٹ کا وکیل ہوں ۔
اس پرچیف جسٹس نے کہاکہ ، ’مبارک ہو آپ ہائیکورٹ کے وکیل ہیں مگرآپ تشریف رکھیں‘، تاہم شوکت بسرا بضد رہے توچیف جسٹس نے کہاکہ بیٹھ جائیں ورنہ لائسنس منسوخ کرنے کا حکم دیکرتوہین عدالت کا نوٹس بھی کرسکتے ہیں۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پرانتخابات کالعدم قراردینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے درخواست گزارعلی خان کوپانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا۔
واضح رہے کہ درخواست گزار بریگیڈیر ریٹائرڈ علی خان نے اپنی درخواست میں جو گھر کا ایڈریس لکھا ہے وہ فوج کے زیر انتظام چلنے والے ادارے ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی اسلام آباد کا ہے۔
جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق درخواست گزار کو فوج میں بغاوت پھیلانے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے الزام میں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں انھیں سزا بھی سنائی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے درخواست گزار کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے وزارت دفاع سے بھی معلومات مانگی تھیں۔
پہلی سماعت کے دوران درخواست گزار کے پیش نہ ہونے پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ درخواست دائر کرنے کا مقصد محض سستی شہرت حاصل کرنا تھا۔عدالت اس معاملے کو ایسے نہیں جانے دے گی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ تھا کہ درخواست گزار نے 12 فروری کو درخواست دائر کی اوراگلے روزواپس لینے سے متعلق درخواست بھی دائر کی تھی۔
واضح رہے کہ بریگیڈیئر (ر )علی خان نے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کرتے ہوئے کسی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی خدمات حاصل نہیں کیں۔
برگیڈیئر (ر )محمد علی کی جانب سے دائردرخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ یہ انتخابات عدلیہ کی زیرنگرانی نہیں ہوئے اور ان انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق تمام سیاسی جماعتیں آواز اٹھا رہی ہیں، لہذا انھیں کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی گئی تھی کہ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں حکومت بننے کے عمل کو روکا جائے اور عدلیہ کی زیر نگرانی 30 روز میں نئے انتخابات کروانے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ دھاندلی ،الیکشن فراڈ کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے احکامات دیے جائیں۔ عالمی سطح پر بھی ان انتخابات میں ہونے والی دھاندلی پر تنقید سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہو رہی ہے اورالیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔
واضح رہے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ عبوری نتائج کے مطابق آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔بلوچستان میں پی ٹی آئی، کچھ مذہبی سیاسی جماعتیں اور قوم پرست جماعتیں انتخابات کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ انتخابات منصفانہ تھے اور عمران خان کی پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی جیت انتخابی شفافیت کا ثبوت ہے۔