مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان حکومت سازی کیلئے اتفاق ہوگیا۔ دونوں جماعتوں کے وزیراعظم کے امیدوار شہباز شریف ہوں گے جب کہ دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا ہے کہ ملک کا صدر آصف علی زرداری کو بنایا جائے گا۔
حکومت سازی کیلئے مذاکرات کے چھٹے دورمیں صدر اور وزیراعظم کے عہدوں کے علاوہ چیئرمین سینیٹ، چاروں صوبوں کے گورنرز اور اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدوں کیلئے بھی اتفاق کیا گیا۔
وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کے معاملے پر صدرن لیگ شہبازشریف اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اسلام آباد میں اہم ملاقات ہوئی۔ جس میں دونوں جماعتوں کی رابطہ کمیٹوں کے ارکان بھی موجود تھے۔
یہ اہم ملاقات سینیٹراسحاق ڈار کی رہائش گاہ پر ہوئی۔ جس میں دونوں جماعتوں میں حکومت سازی پر اتفاق ہوگیا۔ معاہدے کے مطابق ملک کا صدر پیپلزپارٹی سے، اور وزیراعظم مسلم لیگ ن سے ہوگا۔
معاہدے کے مطابق چیئرمین سینیٹ پیپلزپارٹی سے اور اسپیکر قومی اسمبلی مسلم لیگ ن سے ہوگا۔
صوبوں کی گورنرشپ کے لیے بھی معاملہ ففٹی ففٹی ہوگا، معاہدے کے تحت گورنر سندھ اورگورنربلوچستان ن لیگ کے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے گورنرز پی پی کے ہوں گے۔
ملاقات کے بعد آصف زرداری اور شہباز شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ شہبازشریف ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم بنیں گے جب کہ صدارتی الیکشن میں آصف زراری مشترکہ امیدوار ہوں گے، وزیراعظم کے الیکشن کے بعد صدر پاکستان کے الیکشن ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے پاس حکومت بنانے کے نمبرز پورے نہیں، جب کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے نمبرز پورے ہوچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کیلئے کمیٹیاں بنی جنہوں نے کام مکمل کرلیا، ن لیگ اور پیپلزپارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔
اس موقع پر پی پی اور ن لیگ کے وزیر اعظم کے امیدوار شہباز شریف نے کہا کہ آزاد ارکان کو پیغام دیا کہ حکومت بنا سکتے ہیں تو شوق سے بنائیں، آزاد اراکین اپنی اکثریت دکھائیں دل سے قبول کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ آزاد اراکین نے سنی اتحاد کونسل، ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ اتحاد کیا، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبلیوایم کے پاس نمبرز پورے نہیں ہیں۔ نئی حکومت بنانے کیلئے ہمارے پاس نمبرز پورے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی ہدایات کی وجہ سے گفتگو حتمی نتیجے پر پہنچی، آصف زرداری کو آئندہ 5 سال کیلئے صدر منتخب کریں گے، ایم کیوایم، ق لیگ سمیت اتحادی مشاورت سے قدم بڑھائیں گے۔
صدر ن لیگ نے کہا کہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئےاتحادیوں کے ساتھ آگے بڑھیں گے، اس اتحاد نے معیشت کو دوبارہ پیروں پر کھڑا کرنا ہے، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے شبانہ روز محنت کرنی ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم ملے ہی اس غرض سے ہیں کہ پاکستان کو مشکلات سے نکالیں، سب سے کہتا ہوں دعا کریں کہ ہم کامیاب ہوجائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے کہتا ہوں دعا کریں ملک کو مشکلات سے نکال لیں، ہماری جستجو صرف پاکستان اورعوام کیلئے ہے۔
ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں میں حکومت سازی پر اتفاق سے قبل وزارتوں پر ڈیڈلاک تھا۔ اس تناظر میں صدر ن لیگ شہبازشریف نے پارٹی قائد نوازشریف سے مری میں ملاقات بھی کی۔ جس میں اسحاق ڈار اور رابطہ کمیٹی کے ارکان بھی شریک ہوئے تھے۔ کمیٹی نے نواز شریف کو پیپلزپارٹی کے ساتھ رابطوں پر بریف کیا تھا۔
دونوں جماعتوں کی مشترکہ پریس کانفرنس سے قبل ذرائع نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پیپلزپارٹی نے شہباز حکومت میں باقاعدہ شمولیت سے انکار کردیا ہے۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے مذاکرات کے چھٹے دور میں حکومت سازی پر اتفاق ہوا۔ اس سے قبل مختلف مواقعوں پر مذاکرات کے 5 دورے ہوئے۔
دونوں جماعتوں کی رابطہ کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور پیر کو سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی رہائش گاہ پرمنعقد ہوا تھا۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات کے تمام مراحل میں ن لیگ کا مطالبہ رہا کہ پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ بنے۔
اس دوران مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے رکھے۔
واضح رہے کہ منگل کے روز چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے حکومت سازی کے لیے مذاکرات میں مسلم لیگ ن پر غیرسنجیدہ کا الزام عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ن لیگ اپنا موقف تبدیل کرے، پی پی اپنے موقف میں تبدیلی نہیں لائے گی۔
سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں بلاول نے کہا تھا کہ اگر میں نے مسلم لیگ کو ووٹ دینا ہے تو میں اپنی شرائط پر ن لیگ کو ووٹ دوں گا، میں ن لیگ کی شرائط پر انہیں ووٹ کیسے دوں۔
انہوں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اپنے موقف پر قائم ہے اور وہ تبدیل نہیں کرے گی۔ اگر کسی اور کو اپنا موقف تبدیل کرنا ہے تو پیشرفت ہو سکتی ہے، اگر موقف تبدیل نہ ہوا تو جمود آجائے گا جو پاکستان کی جمہوریت اور استحکام کے لیے سود مند نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا تھا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے منشور میں فرق ہے، پیپلز پارٹی کا منشور اُس وقت نافذ ہوگا جب ہمارا وزیر اعظم ہوگا، 3 سال اور 2 سال وزیر اعظم بننے والا کوئی ایسا فارمولا زیر غور نہیں ہے۔