Aaj Logo

اپ ڈیٹ 20 فروری 2024 03:33pm

کیا بھٹو کیس فوج، عدلیہ کیلئے الزامات سے دامن چھڑانے کا موقع نہیں، چیف جسٹس کا سوال

سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کوعدالتی فیصلے کے تحت پھانسی دینے کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا بھٹو کیس افواج پاکستان اور سپریم کورٹ کیلئے اپنی غلطی درست کرنے اور ساکھ بحالی کا ایک موقع نہیں؟ مارشل لا فوج بطور ادارہ نہیں لگاتی ایک شخص کا انفرادی فعل ہوتا ہے، غلط کاموں کا مدعا انہی انفرادی شخصیات پر ڈال کر اداروں کا ان سے لاتعلق ہونے کا موقع نہیں؟ کیا ایسا کرنا قوم کے زخم نہیں بھرے گا؟ ہم ماضی میں رہ رہے ہیں اور ہماری تاریخ بوسیدہ ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ ریفرنس کی سماعت کی۔

بینچ کے دیگرارکان میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔

عدالت نے ریفرنس میں مقررکیے گئے عدالتی معاونین سے تحریری دلائل طلب کر رکھے تھے۔

سماعت کے دوران چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری، شیری رحمان، فیصل کریم کنڈی ، وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر پارٹی رہنما بھی موجود تھے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاعدالتی معاونین نےجواب جمع کرائے ہیں؟ کیا ریما عمر آئی ہیں؟

اس دوران مخدوم علی خان روسٹرم پرآئے جن سے چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ نےکچھ فائل کیاہے؟ آپ نے2 والیم پرمشتمل جواب جمع کرایاہے۔ سابق جج اسد اللہ چمکنی اور صلاح الدین بھی بطور عدالتی معاونین پیش ہوئے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ اس معاملے میں آپکاقانونی نکتہ کیا ہے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ بھٹو کیس میں جو فیصلہ دیا گیا کیا اس کے آرٹیکل 4 کو پورا کیا؟

مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کے آغاز پرعدالت کو بتایا کہ عدالتی معاون خالد جاوید بیمارہیں، وہ آٸندہ سماعت پرآٸینگے۔ چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ مخدوم صاحب آپکاجواب 2 والیم پر مشتمل ہے، ہمارا اصل فوکس آئینی پہلو کی طرف ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کاروائی میں طریقہ کاردرست اپنایا گیا یا نہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ ذوالفقاربھٹوکیس فیصلے میں بدنیتی پر بات کروں گا، سابق چیف جسٹس نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ان پر فیصلے کیلئے دباؤتھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ سابق چیف جسٹس نے اپنی غلطی کااعتراف کیا،اسے بدنیتی نہیں اعتراف جرم کہیں گے۔ ذوالفقارعلی بھٹو قتل کے فیصلے میں غلطی کا اعتراف کیا گیا ہے،جان بوجھ کر غلط کام کیا جائے تو اسے بدنیتی نہیں کہیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ، ’ہمارااختیار سماعت بالکل واضح ہے ۔ یہ واضح ہے کہ دومرتبہ نظرثانی نہیں ہوسکتی، ہم اس کیس میں لکیرکیسے کھینچ سکتے ہیں،کیااس کیس میں تعصب کاسوال ہےیاغلط فیصلہ کرنے کوتسلیم کرنا ہے؟

عدالتی معاون کی جانب سے یہ کہنے پر کہ، ’ایک جج نے انٹرویو میں کہا ان پر دباؤ تھا‘ ، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو نہیں کہا میں تعصب کا شکار تھا۔ اگرمیں دباؤ برداشت نہیں کرسکتا تومجھے عدالتی بنچ سے الگ ہوجانا چاہیے۔

مخدوم علی خان نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انٹرویو کا ایک حصہ تعصب کے اعتراف کا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ، ’کل کوئی جج کہے مجھ پر بیوی کا دباؤتھا تویہ کس کیٹیگری میں آئے گا؟‘

جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ اصل سوال ہےکہ اب ہم کیسے دروازہ کھول سکتےہیں، کیاہم آرٹیکل186کے تحت اب یہ فیصلہ کرسکتےہیں کہ پروسس غلط تھا،اب ہم اس معاملے میں شواہد کیسے ریکارڈ کرسکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ہم اس پہلوکو نظراندازکرسکتے ہیں کہ کیس کے وقت ملک میں مارشل لا تھا، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا اپنا مفاد تھا.

جسٹس منصورعلی شاہ کے سوال پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ اس وقت ججزنے پی سی اوکے تحت حلف اٹھایا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اختلاف کرنے والوں کوبعد میں ملک نہیں چھوڑنا پڑا؟ جسٹس صفدرشاہ نے ملک چھوڑا کیا اختلاف کرنے والوں کا کوئی انٹرویویا کتاب ہے؟

مخدوم علی خان نے جسٹس دراب پٹیل کے انٹرویو کا حوالہ دیا۔ جس پرجسٹس منصور علی شاہ نے 3 بنیادی سوالات کے جواب دینے کا کہا۔

-ذوالفقار بھٹو کیس کے فیصلے میں کیا ناانصافی ہوئی؟

-اگر ناانصافی ہوئی توثبوت کیسے ملیں گے؟

-ثبوت مل جائیں توکیا یہ عدالت آرٹیکل 186 کے تحت انکوائری کرا سکتی ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کیا عدالت کمرے میں ہاتھی یعنی مارشل لاء کونظراندازکردے؟ کیا پراسیکیوشن کو اس وقت ایک شخص کو مارشل لاء کے نفاذ کیلئے سزا دینا مقصود نہیں تھا؟

جسٹس منصور علی شاہ کے سوال پر مخدوم علی خان نے بتایاکہ فیصلہ چارتین سے آیا تھا ، اقلیتی ججزمیں جسٹس محمد حلیم ، جسٹس غلام صفدر شاہ اور جسٹس دراب پٹیل تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بھٹو کیس افواج پاکستان اور سپریم کورٹ کیلئے اپنی غلطی درست کرنے اور ساکھ بحالی کا ایک موقع نہیں؟ کیا یہ موقع نہیں دونوں ادارے خود پر لگے الزامات سے دامن چھڑائیں، کیا بھٹو کیس کے فیصلے سے عدلیہ اور فوج کے لیے ایک لکیر نہیں کھینچ جائے گی؟۔

انہوں نے کہا مارشل لا فوج بطور ادارہ نہیں لگاتی ایک شخص کا انفرادی فعل ہوتا ہے، کیا غلط کاموں کا مدعا انہی انفرادی شخصیات پر ڈال کر اداروں کا ان سے لاتعلق ہونے کا موقع نہیں؟ کیا ایسا کرنا قوم کے زخم نہیں بھرے گا؟ ہم ماضی میں رہ رہے ہیں اور ہماری تاریخ بوسیدہ ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ یہ ایک مخصوص کیس تھا ،اگرہم اس کیس کوایک خاص پیرائے میں دیکھیں تو مارشل لاء کے دوران باقی کیسزکودیکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

سپریم کورٹ میں وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالتی معاون مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی آئندہ سماعت 26فروری کو ہوگی۔

چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوایا جس میں کہا گیا کہ آج عدالتی معاون مخدوم علی خان نے معاونت کی،عدالتی معاون خالدجاویدنےتحریری بریف عدالت کو فراہم کیا، عدالتی معاون صلاح الدین کو معاونت کیلٸے ایک گھنٹہ چاہیے، عدالتی معاونین کے عدالت دیگرفریقین کو عدالت سنے گی۔؎صدارتی ریفرنس پرآٸندہ سماعت 26فروری دن ساڑھے گیارہ بجے ہوگی۔

صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ بھٹو کی بھانسی کے خلاف یہ ریفرنس ان کے داماد اور سابق صدر صف علی زرداری کی جانب سے 2011 میں آئین کے آرٹیکل 86 کے دائر کیا گیا تھا۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں ریفرنس پر چند سماعتیں ہوئیں لیکن اُن کے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان نے صدارتی ریفرنس پر سماعت نہیں کی۔

ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس میں صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر

ریفرنس کی پیروی سابق وفاقی وزیر بابر اعوان نے کی تھی جو اُس وقت پی پی کاحصہ تھے تاہم اب پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی قیادت نے وکیل رہنما اور سینئر پارٹی رُکن عتزاز احسن سے ریفرنس کی پیروی کرنے کی درخواست کی تھی تاہم انہوں نے معذرت کرلی۔

صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے 5 سوالات

آصف علی زرداری نے صدارتی ریفرنس میں پانچ سوالات اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ سے رائے طلب کی تھی۔

کیا سابق وزیراعظم ذوالفقاربھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں شامل بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟

کیاپھانسی کی سزا کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پرآرٹیکل 189 کے تحت سپریم کورٹ اورتمام ہائیکورٹس پر لاگو ہو گا؟اگر نہیں تو فیصلے کے نتائج کیا ہونگے؟

کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ منصفانہ تھا؟ کیا ذاولفقارعلی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا یہ فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

کیا یہ سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

کیا سابق وزیراعظم کیخلاف ثبوت اور گواہان کے بیانات انہیں سزا سنانے کیلئے کافی تھے؟

سماعتیں کب ہوئیں

پہلی سماعت 2 جنوری 2012 اورآخری 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی جو 9 رکنی لارجربینچ نے کی تھی تاہم اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل بابر اعوان کا وکالت لائسنس منسوخ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے وکیل کی تبدیلی کا حکم دیا تھا، بعد ازاں اسی بنیاد پر یہ ریفرنس ملتوی کردیا گیا تھا۔

نومبر 2012 کے بعد سے اب تک پاکستان کے 8 چیف جسٹس صاحبان مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں تاہم تب سے اس ریفرنس کو سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا گیاتھا۔

موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکتوبر 2023 میں صحافیوں سے ملاقات میں ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی جلد سماعت کا عندیہ دیا تھا۔

Read Comments