بھارت کی مشرقی ریاست مغربی بنگال میں انتہا پسند ہندو اس بات پر برہم ہیں کہ سرکاری کنٹرول والے ایک پارک کے ایک انکلوژر میں اکبر نامی شیر اور سیتا نامی شیرنی کو رکھا گیا ہے۔
وشوا ہندو پریشد کے رہنما چاہتے ہیں کہ اس جوڑے کے نام بدل دیے جائیں۔ اس حوالے سے انہوں نے عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔
انتہا پسند ہندو گروپ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس جوڑے کو ایک انکلوژر میں بھی نہ رکھا جائے۔ اس کا استدلال ہے کہ شیرنی کا نام سیتا رکھنے سے ہندوؤں کی دل آزاری ہوئی ہے کیونکہ سیتا ایک دیوی کا نام ہے۔
وی ایچ پی کے ایک اعلیٰ عہدیدار انوپ مونڈل نے اتوار کو بیان میں کہا کہ ’سیتا‘ کسی بھی صورت ’اکبر‘ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔
مغربی بنگال کی ایک عدالت وی ایچ پی کی درخواست کی سماعت کل (20 فروری کو) کرے گی۔
واضح رہے کہ انتہا پسند ہندو مغل خاندان کے پورے عہدِ حکومت کو ہندوستان بھر کے لیے غلامی کا زمانہ تصور کرتے ہیں۔
عدالت میں جمع کرائی جانے والی آئینی درخواست میں وی ایچ پی نے کہا ہے کہ کسی درندے کو سیتا سے مسموم کرنا ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے اس لیے نام تبدیل کیا جائے۔ وی ایچ پی نے یہ آئینی درخواست جمعہ کو دائر کی۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ جانوروں کو مذہبی شخصیات سے موسوم کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔
وی ایچ پی کے انوپ مونڈل کہتے ہیں کہ جب یہ ’اکبر‘ جب پڑوسی ریاست تری پورہ کے نیشنل پارک میں تھا تب اس کا نام ’رام‘ تھا، مغربی بنگال کے سلی گڑی نیشنل پارک میں لائے جانے پر اس کا نام ’اکبر‘ رکھ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں :
ایودھیا کا رام مندر انتہا پسند ہندو جماعتوں کو لڑانے لگا
بحرین نے انتہا پسند ہندو ڈاکٹر برطرف کردیا
انتہا پسند ہندو لیڈر کی ستائی ہوئی 78 سالہ ڈورین کو 19 سال بعد انصاف مل گیا
مودی سرکار کے ناقدین کا کہنا ہے کہ جب سے نریندر مودی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے بھارت بھر میں مذہبی عدم برداشت کا گراف خطرناک حد تک بلند ہوچکا ہے۔
مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے اپوزیشن کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سے قبل مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تھی جو سیکیولر ازم کی داعی تھی اور مذہب کو سیاست سے دور رکھنے کی پالیسی پر عمل کرتی تھی۔
مغربی بنگال کے محکمہ جنگلات کے افسر دیپک کمار منڈل نے کہا ہے کہ ’اکبر‘ اور ’سیتا‘ کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔