افغانستان کی طالبان انتظامیہ نے شرائط تسلیم نہ کیے جانے پر اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان کے معاملے پر طلب کردہ بین الاقوامی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر آج اتوار کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دو روزہ مذاکرات کا آغاز کرنے والے ہیں، جس کا مقصد افغانستان کے ساتھ مزید مربوط بین الاقوامی مصروفیات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
یہ اجلاس مئی 2023 میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کا ایک فالو اپ ہے، جس میں کسی افغان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا، لیکن اس بار افغان سول سوسائٹی کے ارکان اور طالبان حکام دونوں کو اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے۔
تاہم، تاحال طالبان حکومت کی اس اجلاس میں شرکت کی نوعیت واضح نہیں ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اگر کچھ شرائط پوری نہ کی گئیں تو طالبان وفد کی اس اجلاس میں شرکت کا امکان نہیں ہے۔
ہفتہ کو افغانستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سامنے اپنی شرائط رکھی ہیں۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اگر امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سے واحد ذمہ دار فریق کی حیثیت سے شرکت کرتی ہے اور اگر افغان وفد اور اقوام متحدہ کے درمیان تمام امور کے بارے میں انتہائی اعلیٰ سطح پر واضح بات چیت کرنے کا موقع موجود ہو تو اس اجلاس میں شرکت فائدہ مند ہوگی، بصورت دیگر افغان حکام کی اس اجلاس میں غیرمؤثر شرکت بے سود سمجھی جائے گی۔
ایک سینئر سفارتی ذرائع نے افغان ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ طالبان وفد نے مذاکرات میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے روبرو ملاقات کی درخواست کی ہے تاکہ وہ ان کے سامنے اپنا مؤقف پیش کریں۔
افغانستان کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے دوحہ میں افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی کا اجلاس بلایا جا رہا ہے، یہ اختلافی مسائل پر واضح اور نتیجہ خیز مذاکرات کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔
دریں اثنا، پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے آصف درانی افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی کے اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ ’اجلاس میں پاکستان کی شرکت افغانستان میں دیرپا امن اور خوشحالی کے لیے کوششوں کو تقویت دینے کے لیے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کے ساتھ فعال طور پر شمولیت کی ہماری کوششوں کا حصہ ہے۔‘
اگست 2021 میں امریکی فوجیوں کے انخلا اور طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے طالبان حکومت کو کسی بھی ملک نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
مختلف ممالک نے افغانستان کے نئے حکام کے ساتھ تعلقات کے لیے مختلف انداز اپنائے ہیں، تاہم اس میں خواتین کے حقوق پر پابندیاں اور سلامتی کے خدشات جیسے اہم رکاوٹیں درپیش رہی ہیں۔