جامشورو انٹرچینج پر جی ڈی اے کے دھرنے کے اثرات اس سے پہلے ہی نظر آنے لگے تھے جب گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو اہم پیغام لے کر کنگری ہاؤس کی حاضری بھرنا پڑی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دو سے تین مزید اہم شخصیات نے بھی پیرپگارا کے پاس جا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ دھرنا طویل نہ کریں، کوئی بڑا اعلان نہ کریں اور اپنے خطاب میں خصوصی طور پر ریاستی اداروں کے حوالے سے کوئی سخت بات نہ کریں۔ مذکورہ اہم ملاقاتوں میں پیر پگارا کے بھائی پیر صدرالدین شاہ راشدی کو بھی آن بورڈ لیا گیا اور بالاخر پیر پگارا نے یقین دہانی کرادی کہ وہ ریاستی اداروں کے بارے میں کوئی سخت بات نہیں کریں گے، نہ ہی اس جلسے میں کوئی ایسا اعلان کریں گے جس سے حالات کو سنبھالنا ممکن نہ رہے، تاہم ان کو جو کچھ کہنا تھا دھیمے لہجے میں کہہ گئے، باقی کام پیر صدرالدین شاہ اپنے خطاب میں کر گئے۔
یاد دلاتا چلوں کہ موجودہ پیر پگارا کے والد پیر شاہ مردان شاہ پیر پگارا کے دور میں سیاسی معاملات پیر صدرالدین شاہ راشدی عرف یونس سائیں دیکھتے تھے، مرحوم پیر پگارا کی تربیت اور ان کے خاص دوستوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے باعث حر جماعت میں پیر صدرالدین شاہ کا خصوصی مقام ہے۔
جمع کے دن جامشورو انٹرچینج کے چاروں اطراف بلا مبالغہ ہزاروں لوگ جمع تھے، جن میں غالب اکثریت پیر پگارا کے مریدین کی تھی، جن کو حر کہا جاتا تھے۔ دھرنے کے لیے مخصوص سفید ٹوپیاں اور رومال پہن کر آئے ہوئے لوگ انتہائی جذباتی ہونے کے باوجود منظم تھے۔
ایک طرف رات کو سیکیورٹی اداروں کی گاڑی کا راستہ روک کر ان کو واپس کردیا تو یہ مناظر بھی دنیا نے پہلی دفعہ دیکھے کہ ہزاروں کے مجمعے نے ایمبولنس اور اس کے ساتھ جانے والی گاڑیوں کو راستہ دیا۔
اس دھرنے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں جے یوآئی اور جماعت اسلامی کے رہنماٶں نے بھی خطاب کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور ایم کیوایم کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں کم از کم احتجاج کے معاملے پر اکٹھی ہورہی ہیں۔
پیر پگارا نے اپنے خطاب میں عمران خان کی کھلم کھلا حمایت کرکے ایک طرح سے یہ پیغام بھی دے دیا کہ احتجاج کے نکتے پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا ملک گیر اتحاد بھی ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ پیر پگارا نے دھیمے لہجے میں کئی معنی خیز باتیں کیں اور مقتدر حلقوں کو یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ ان کی پی ٹی آئی کے خلاف پالیسی ناکام ہوچکی ہے، نوجوانوں نے سختیوں کے باوجود پی ٹی آئی کے خلاف بنائے گئے بیانیے کو مسترد کردیا اور تاریخ میں پہلی دفعہ اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کو منتخب کرلیا۔ جس کا مطلب ہے کہ آنے والے سالوں میں ایسا نہیں چلے گا۔ واضح کیا کہ اگر اس عوامی اور بالخصوص نوجوانوں اور خواتین کی رائے کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی گئی تو فائدہ نہیں ہوگا یہ ایسا سیلاب ہوگا جو سب کو بہالے جائے گا اور اپنا راستہ خود ہی بنائے گا۔
پیر پگارا نے مارشل لا لگنے کا سرعام خدشہ ظاہر کرتے ہوئے گویا یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ زیادہ سے زیادہ یہی ممکن ہے نا۔ ساتھ ہی کہا ایسا ہوا تو عدلیہ بھی مارشل لا کو جائز قرار دے دے گی۔
اس موقع پر انہوں نے پیر بن کر دعا کی کہ اللہ تعالی فوج اور عدلیہ کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔
یہ 12 منٹ کا انتہائی اہم خطاب تھا، اس سے پہلے پیر صدرالدین شاہ راشدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پیر پگارا اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ اس قسم کے انتخابات کو قبول نہیں کریں گے، یہ گویا ان ناصحین کے لیے پیغام تھا جو پس پردہ پیر صاحب کو سمجھانے کی کوششیں کر رہے ہیں، پیر صدرالدین شاہ نے یہ بھی کہا کہ فیصلہ کرلو، کہیں وہ دن نہ دیکھنا پڑے جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔
اس جلسے کے اثرات بھی دکھائی دینے لگے ہیں، ن لیگ کے میڈیا سیل نے ایک خبر جاری کی کہ نوازشریف کی زیرصدارت اجلاس میں اسحاق ڈار سمیت اہم رہنماؤں نے مشورہ دیا ہے کہ جب تک پیپلز پارٹی مکمل طور پر اتحاد میں شامل نہیں ہوتی وفاقی حکومت نہ بنائی جائے۔ بہتر یہی ہوگا کہ ن لیگ پنجاب میں حکومت سازی پر دھیان دے۔ خبر کے مطابق نوازشریف نے ہدایت کردی کہ حکومت میں شمولیت کے عوض کسی بھی اتحادی جماعت کی ناجائز شرط نہ مانی جائے۔
میری پہلے دن سے یہ رائے ہے کہ انتخابی نتائج کے خلاف اس دفعہ کا احتجاج روایتی نہیں۔ حکومتیں بنانا اور چلانا انتہائی کٹھن ہوگا، غور کریں جس جماعت کو پلیٹ میں سجا کر وزارت عظمیٰ دی جارہی ہے، اس کی بھی اقتدار سنبھالنے میں ٹانگیں کانپ رہی ہیں تو اور کون ہوگا جو ان حالات میں اپنی سیاسی عاقبت داٶ پہ لگائے گا؟