فرانسیسی صدر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے دو ریاستوں پر مشتمل حل قبول نہ کیے جانے کے باعث پیرس معاملات کو بحسن و خوبی نپٹانے کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی طرف جاسکتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ فرانس کی طرف سے فلسطینی ریاست کو یک طرفہ طور پر تسلیم کرنے سے زمینی حقیقت تبدیل نہیں ہوگی کیونکہ اس کے لیے جامع مذاکرات ناگزیر ہیں تاہم اس سے کے نتیجے میں علامتی طور پر اور سفارتی امور میں تھوڑا بہت دباؤ ضرور پڑے گا۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کہتے ہیں کہ اسرائیل کبھی غربِ اردن کا سیکیورٹی کنٹرول ہاتھ سے جانے نہیں دے گا اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی صورت میں ایسا ہی ہوگا۔
2014 میں فرانس کے قانون سازوں نے ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دے کر اپنی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی اور پائیدار امن کی راہ ہموار ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ اس علامتی اقدام سے فرانس کی سفارت کار پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوگا۔
پیرس میں اردن کے شاہ عبداللہ ثانی کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں فرانسیسی صدر ایمینوئل نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے معاملے میں اردن بھی ہمارے ساتھ ہے جو اس خطے میں ہمارا پارٹنر ہے۔ ہم اردن کی قیادت سے مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم یورپی پارلیمنٹ اور سلامتی کونسل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں :
فرانسیسی صدر نے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے
امریکی اور فرانسیسی صدور جانتے ہیں کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے لیکن بات نہیں کریں گے، اروندھتی رائے
فرانسیسی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی امنگوں کو ایک زمانے سے کچلا جارہا ہے۔
بیشتر یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پہلے جامع مذاکرات کیے جائیں۔