دنیا میں گدھوں کی کھال کا متنازع کاروبار چل رہا ہے، یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ خوبصورتی بڑھانے کی دوا کی تیاری میں کھال کا استعمال ہوتا ہے، کھالوں کی زیادہ مانگ اور کھال کی زیادہ قیمتیں گدھوں کی چوری اور انھیں مارنے کا سبب بن رہی ہیں۔
بی بی سی کی شائع رپورٹ کے مطابق چین میں گدھے کی کھال میں موجود ’جیلیٹن‘ سے بننے والی ایک دوا کی بہت مانگ ہے۔ اس دوا کو چین میں ’ایجیاؤ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس دوا میں صحت کی بہتری، خوبصورتی اور ’جوانی کو محفوظ‘ رکھنے والی خصوصیات ہیں۔ ’جیلیٹن‘ کی تیاری کے لیے گدھے کی کھال کو اُبال کر پاؤڈر، گولیاں یا مائع شکل میں دوائی بنائی جاتی ہے۔
گدھوں کے کھالوں کے اس متنازع کاروبار کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جو کمائی کے لیے گدھوں پر انحصار کرتے ہیں، اس دوا کی بڑھتی مقبولیت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’دی ڈنکی سینکچوری‘ برطانیہ کی ایک فلاحی تنظیم ہے جو 2017 سے گدھے کی کھالوں کی اس تجارت کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اس تنظیم نے اپنی ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’اندازاً عالمی سطح پر ہر سال کم از کم 59 لاکھ گدھوں کو کھال کے حصول کے لیے مارا جا رہا ہے‘۔
اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ان گدھوں کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم بی بی سی ان اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
چین میں اس دوا سے منسلک انڈسٹری کو سپلائی کرنے کے لیے کتنے گدھے مارے جاتے ہیں اس کی تفصیلات حاصل کرنا خاصا مشکل ہے۔
اندازے کے مطابق دنیا میں پانچ کروڑ 30 لاکھ گدھے ہیں اور ان میں سے تقریباً دو تہائی گدھے افریقی ممالک میں موجود ہیں۔ افریقی ممالک میں جانوروں کی فلاح و بہود سے متعلق قوانین میں مبینہ طور پر خامیاں پائی جاتی ہیں جن کا فائدہ گدھوں کی کھالوں کی تجارت میں ملوث گروہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
گدھے کی کھال کی برآمد کچھ ممالک میں قانونی ہے اور کچھ ممالک میں غیر قانونی ہے۔ لیکن کھالوں کی زیادہ مانگ اور کھال کی زیادہ قیمتیں گدھوں کی چوری اور انھیں مارنے کا سبب بن رہی ہیں۔
’دی ڈنکی سینکچوری‘ کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم ہوا ہے کہ گدھوں کو بین الاقوامی سرحدوں کے پار اُن مقامات تک لے جایا جا رہا ہے، جہاں اُن کی تجارت قانونی ہے۔
مگر اب شاید صورتحال کچھ بہتر ہو جائے کیونکہ اس صورتحال کے پیش نظر بیشتر افریقی ممالک کی حکومتیں اور برازیل گدھوں کی کم ہوتی ہوئی آبادی کے تناظر میں گدھوں کو ذبح کرنے اور اُن کی برآمد پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کھالوں کی تجارت میں تیز رفتار ترقی نے اس کاروبار کے خلاف سرگرم اداروں اور ماہرین کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے اور کینیا میں اس ضمن میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
افریقی یونین کے سربراہی اجلاس میں پورے افریقہ میں اس پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی کی تجویز ایجنڈے کا حصہ ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایجیاؤ نامی دوا بنانے والے گدھوں کی کھالوں کو چین میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن وہاں کی زراعت اور دیہی امور کی وزارت کے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد 1990 میں 11 ملین سے کم ہو کر سنہ 2021 میں 20 لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔
اس کے بعد چینی کمپنیوں نے بیرون ملک سے گدھوں کی کھال خریدنا شروع کر دیں۔ افریقہ، جنوبی امریکہ اور ایشیا کے کچھ حصوں میں گدھوں کے باقاعدہ ذبح خانے قائم کیے گئے تھے۔
افریقہ میں اس وجہ سے اس متنازع تجارت پر ایک بحث چھڑ گئی۔
ایتھوپیا میں، جہاں گدھے کے گوشت کا استعمال قابل شرم سمجھا جاتا ہے، عوامی احتجاج اور سوشل میڈیا پر شور شرابے کے بعد سنہ 2017 میں یہاں پر قائم گدھوں کے دو ذبح خانوں میں سے ایک کو بند کیا گیا۔
تنزانیہ اور آئیوری کوسٹ سمیت دیگر ممالک نے سنہ 2022 میں گدھے کو کھالوں کے حصول کے لیے مارنے اور کھالوں کی برآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔
یونیورسٹی آف سڈنی سے تعلق رکھنے والے چین، افریقہ تعلقات کے اسکالر پروفیسر لارین جانسٹن کے مطابق چین میں ’ایجیاؤ‘ مارکیٹ سنہ 2013 میں تقریباً 3.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر سنہ 2020 میں تقریباً 7.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔