Aaj Logo

شائع 16 فروری 2024 06:53pm

روسی صدر کے سیاسی حریف جیل میں چل بسے، امریکا کا سخت رد عمل

روس میں قید حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی انتقال کر گئے ہیں، جیل سروس کا کہنا ہے کہ وہ جیل میں قید تھے اور اپنی سزا کاٹ رہے تھے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ اگر موت کی تصدیق ہوتی ہے تو ’روس اس کا ذمہ دار ہے‘۔**

غیر ملکی میڈیا کے مطابق روس کے وفاقی حکام نے بتایا کہ حزب اختلاف کے اہم رہنما الیکسی ناوالنی جمعے کو آرکٹک جیل کالونی میں انتقال کر گئے جہاں وہ 19 سال قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

یاد رہے کہ دو ماہ قبل روس کے اپوزیشن لیڈرالیکسی ناوالنی تقریبا تین ہفتے تک لاپتہ رہنے کے بعد آرکٹک سرکل کے اوپر ایک دور افتادہ جیل کالونی میں قید پائے گئے ہیں۔

روس میں قید حزب اختلاف کے رہنما کی موت کے حوالے سے وفاقی جیل سروس کا کہنا ہے کہ الیکسی ناوالنی چہل قدمی کے بعد بے ہوش ہو گئے اور طبی عملے انہیں بچا نہ سکا۔

سروس کے مطابق نوالنی کی طبیعت چہل قدمی کے بعد بہت خراب ہو گئی اور وہ بے ہوش ہو گئے تھے، طبی عملہ فوراً پہنچا اور ایمبولینس ٹیم کو بھی بلا لیا گیا۔ انہیں بچانے کی کوشش کی گئی لیکن مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے، طبی عملے نے ان کی موت کی تصدیق کی ہے۔ موت کی وجوہات کا پتہ لگایا جا رہا ہے۔

ناوالنی کے پریس سیکریٹری کیرا یارمیش نے کہا کہ ان کی ٹیم کو نوالنی کی موت کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ نوالنی کے وکیل اب کھرپ میں اس جیل کالونی جا رہے ہیں جہاں وہ قید تھے۔

روسی خبر رساں اداروں نے بتایا کہ صدر پیوٹن کو ناوالنی کی موت کی اطلاع دے دی گئی ہے۔

مغربی حکومتوں کی جانب سے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے سب سے بڑے ناقد کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد سخت تنقید کی جارہی ہے۔

مغربی حکومتوں اور روسی حزب اختلاف کی شخصیات نے کریملن کو ان کی موت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

امریکا کا ردعمل

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ اگر ناوالنی کی موت کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ صرف اس نظام کی کمزوری اور سڑن کو ظاہر کرتا ہے جو پیوٹن نے بنایا ہے۔

میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ رپورٹس درست ہیں تو ہمارے دل ان کی اہلیہ اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر موت کی تصدیق ہوتی ہے تو ’روس اس کا ذمہ دار ہے‘۔

Read Comments