سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے جسٹس (ریٹائرڈ) مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 7 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرلیے جب کہ مزید 4 گواہوں کے بیانات مل ریکارڈ کیے جائیں گے۔
جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل خواجہ حارث سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوئے اور سپریم جوڈیشل کونسل کی مزید معاونت سے معذرت کر لی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ میرا وکالت نامہ جسٹس نقوی کے جج ہونے تک ہی تھا، ریٹائرڈ ججز کےخلاف کارروائی سے متعلق سپریم کورٹ کا بینچ مقدمہ سن رہا ہے، عزیز صدیقی کیس میں بھی ایسا ہی نکتہ ہے جو الگ بینچ میں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے عافیہ شیربانو کیس کے فیصلے کا انتظار کریں گے، شوکت عزیز صدیقی کیس میں فیصلہ محفوظ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی کےخلاف گواہان کو بلایا گیا تھا، آج ان کے بیانات ریکارڈ کریں گے، آپ گواہان پر جرح کرنا چاہیں تو آگاہ کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ کے فیصلوں تک کسی فیصلے پر نہیں پہنچے گی، سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ مظاہر نقوی کی درخواست پر کارروائی پبلک کے لیے اوپن ہے، مظاہر نقوی نے رجسٹرار کو بذریعہ خط مطلع کیا ہے کہ انہوں نے خواجہ حارث سے وکالت نامہ واپس لے لیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ کونسل نے مظاہر نقوی کو اجازت دی ہے کہ وہ کسی بھی گواہ پر جرح کر سکتے ہیں، کونسل کی اوپن کارروائی میں کوئی بھی آ کر گواہ پر جرح کر سکتا ہے، آج کی کارروائی میں کسی نے گواہان پر جرح نہیں کی۔
کونسل نے مزید کارروائی کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔
پراسیکیوٹر منصور عثمان اعوان نے کہا کہ مجموعی طور پر پانچ آفیشل گواہان کی فہرست پیش کی ہے۔
اس موقع پر پہلے گواہ ملٹری اسٹیٹ آفیسر لاہور کینٹ عبدالغفار ریکارڈ کے ہمراہ کونسل کے سامنے پیش ہوئے، ملٹری اسٹیٹ افسر لاہور کینٹ عبدالغفار نے بیان قلمبند کرانے سے قبل حلف اٹھایا کہ میں جو کہوں گا اپنے ایمان سے سچ کہوں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس کونسی پراپرٹی کا ریکارڈ ہے؟
گواہ نے کہا کہ لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کی پراپرٹی نمبر 100 کا ریکارڈ ہے، 1962 میں یہ پراپرٹی محمد افضال کو لیز پر دی گئی، 1967 میں یہ پراپرٹی محمد اسحاق کو ٹرانسفر ہوئی، محمد اسحاق نے پراپرٹی اپنی بیوی نسیمہ وارثی کو گفٹ کردی۔
انہوں نے کہا کہ 2004 میں یہ زمین نسیمہ وارثی کی بیٹی بسمہ وارثی کو ٹرانسفر ہوئی، بسمہ وارثی نے اس زمین کو دو پلاٹس میں تقسیم کیا، بسمہ وارثی کے بعد شوہر چودھری شہباز اور بیٹے حسن شہباز کو یہ پلاٹس ملے، حسن شہباز سے 2022 میں پراپرٹی جسٹس مظاہر نقوی نے 10 کروڑ سے زائد میں خریدی۔
گواہ نمبر ایک ملٹری اسٹیٹ افسر لاہور کینٹ عبدالغفار نے بیان دیا کہ پراپرٹی کی تقسیم کے بعد ڈاکٹر بسمہ وارثی کے نام 1983 مربع گز زمین تھی، 28 جون 2022 کو 10 کروڑ روپے میں یہ پراپرٹی جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی کے نام ٹرانسفر ہوئی۔
دوسرے گواہ کاشف شہزاد کنٹونمنٹ ایگزیکٹو افسر لاہور کینٹ نے زمین پر تعمیرات کا ریکارڈ پیش کیا اور کہا کہ 3 اکتوبر 2022 کو جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی نے تعمیرات کیلئے بلڈنگ پلان کی درخواست دی، ملٹری اسٹیٹ آفیسر نے بلڈنگ پلان کی منظوری دی، تاحال تعمیراتی کام مکمل ہونے کیلئے سرٹیفیکیٹ کی درخواست موصول نہیں ہوئی۔
تیسرے گواہ زمین کی مالیت کے تعین کرنے والی نجی کمپنی کے ڈائریکٹر آصف عزیر نے بیان دیا کہ 25 جون 2022 کو سینٹ جونز پارک پراپرٹی کی قیمت 27 کروڑ روپے تھی، 9 جنوری 2024 کو اس پراپرٹی کی قیمت 37 کروڑ روپے ہوچکی تھی۔
چئیرمین جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اس زمین پر کوئی تعمیرات کی گئی ہیں، آصف عزیر نے جواب دیا کہ زمین پر تعمیرات کی گئیں مگر ہمیں داخلے کی اجازت نہیں۔
چوتھے گواہ زمین کی مالیت کے تعین کرنے والی نجی کمپنی ڈائریکٹر کاشف رحمان نے بیان دیا کہ 25 جون 2022 کو 100 سینٹ جونز پارک پراپرٹی کو قمیت 25 کروڑ 90 لاکھ اور 8 جنوری 2024 کو 35 کروڑ 60 لاکھ تھی، کونسل کے احکامات پر پراپرٹی پر تعمیرات کیلئے وہاں موجود افراد نے داخلے کی اجازت نہیں دی۔
چیئرمین جوڈیشل کونسل نے سوال کیا کہ سینٹ جونز پارک کا علاقہ اتنا مہنگا کیوں ہے، گواہ کاشف رحمٰن نے جواب دیا کہ سینٹ جونز پارک لاہور کا پوش علاقہ ہونے کی وجہ سے مہنگا ہے۔
ساتویں اور مرکزی گواہ چودھری شہباز سے چیئرمین جوڈیشل کونسل نے سوال کیا کہ آپ کی ڈاکٹر بسمہ وارثی سے شادی کب ہوئی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے نہیں یاد شادی کب ہوئی۔
چودھری شہباز نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا کہ میرے ڈاکٹر بسمہ وارثی سے تین بیٹے ہیں، میری اہلیہ کا انتقال 6 دسمبر 2020 کو ہوا۔
چئیرمین کونسل نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ڈاکٹر بسمہ کے انتقال کے بعد ان کے قانونی ورثاء کے تعین کیلئے سول کورٹ میں مقدمہ دائرکیا تھا؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ قانونی ورثاء کے تعین کے لئے سول کورٹ لاہور میں 2021 میں مقدمہ دائر کیا۔
چئیرمین نے سوال کیا کہ کیا آپ وکیل ہیں؟ جس پر گواہ نے جواب دیا کہ جی میں ہائیکورٹ کا وکیل ہوں، سول کورٹ میں مقدمے کا درخواست گزار ہوں، 2021 میں جب سول کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تب حسن شہباز بھی نابالغ تھا۔
چئیرمین جوڈیشل کونسل نے کہا کہ آپ خود وکیل ہو کر غلط بیانی کیسے کرسکتے ہیں؟
جس پر گواہ نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی مگر میں نے بچوں کا حصہ انہیں دے دیا ہے۔
چئیرمین کونسل نے کہا کہ آپ صرف اپنا حصہ بیچ سکتے تھے، آپ نے نابالغ بچوں کی زمین کیسے فروخت کردی؟ جس پر گواہ نے کہا کہ میں نے زمین فروخت کرنے سے قبل بچوں سے اجازت لی تھی، حسن شہباز خود درخواست گزار تھا۔
چئیرمین کونسل نے کہا کہ نابالغ بچے قانون کے مطابق پراپرٹی فروخت کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، گارڈین کورٹ دے سکتی ہے۔
مرکزی گواہ نے کہا کہ مظاہر نقوی اور ان کے بیٹے مصطفیٰ نقوی پراپرٹی کی فروخت کا معاملہ دیکھ رہے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے سمارٹ سٹی لاہور اور منیجر عسکری بنک گلبرگ لاہور کو بھی نوٹس جاری کردیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مظاہر نقوی کو پلاٹ فروخت کرنے کی اداٸیگی کیسے ہوئی؟ گواہ محمد شہباز نے بتایا کہ جسٹس (ر) مظاہر نقوی کو تیرہ کروڑ کا پلاٹ فروخت کیا، سمارٹ سٹی لاہور نے پانچ کروڑ کا چیک دیا تھا، پانچ کروڑ کا بینک ڈرافٹ تھا اور تین کروڑ جسٹس (ر) مظاہر نقوی نے کیش دیٸے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سمارٹ سٹی کا چیک ملنے پر معاملہ جسٹس (ر) مظاہر نقوی سے اٹھایا تھا، جج صاحب اور ان کے بیٹے کا موقف تھا کہ ان کا کمپنی سے لین دین چلتا رہتا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے پلاٹ فروخت کرنے والے محمد شہباز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جھوٹ بولنا جرم ہے؟ جس پر محمد شہباز نے کہا کہ جی معلوم ہے، دس سال سے وکیل ہوں۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ آپ نے پلاٹ فروخت کرنے کیلٸے بیان دیا کہ آپ کا صرف ایک بیٹا ہے؟ ریکارڈ کے مطابق آپ تین بیٹے ہیں، آپ کے دونوں گواہان نے بھی عدالت میں جھوٹا بیان دیا۔
چیف جسٹس نے بھی سوال کیا کہ آپ نے غلط کام کیوں کیا؟ جس پر محمد شہباز نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہو گٸی۔
چیف جسٹ سنے کہا کہ پہلے جھوٹا دعویٰ داٸر کیا، پھر عدالت سے بھی غلط بیانی کی۔
محمد شہباز نے کہا کہ جسٹس (ر) مظاہر نقوی اور ان کا بیٹا 30 جون 2022 سے قبل پلاٹ خریدنا چاہتے تھے، پلاٹ کے بارے میں تمام معاملات جج صاحب اور ان کا بیٹا دیکھ رہا تھا۔
واضح رہے کہ مظاہر نقوی نے 10 جنوری کو استعفیٰ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اسی روز سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کراتے ہوئے خود پر عائد الزامات کی تردید کی تھی جب کہ اس سے ایک روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔