جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کیلئے سابق آرمی چیف جنرل قمر جایود باجوہ اور سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل (ر) فیض حمید کو ذمی دار ٹھہرا دیا ہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر میں عدم اعتماد سے انکار کرتا تو کہا جاتا کہ مولانا نے بانی پی ٹی آئی کو بچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد سے متعلق جنرل (ر) فیض حمید اور جرنل (ر)قمر جاوید باجوہ ہمارے ساتھ رابطے میں تھے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت اگر میں پھر انکار کرتا تو کہتے کہ فضل الرحمان نے عمران خان کو بچایا ہے‘۔
جب پی ٹی آئی اراکین ٹوٹ کر ایم کیو ایم اور بی اے پی میں جا رہے تھے تو کیا اس وقت جنرل باجوہ اور جنرل فیض آپ سے رابطے میں تھے؟ اس سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’حضرت، وہ بالکل رابطے میں تھے، اور ان کی موجودگی میں سب کو بلایا گیا اور سب کے سامنے یہ کہا گیا کہ آپ نے اس طرح کرنا ہے اور اس طرح کرنا ہے‘۔
صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ سب کون تھے وہ؟ جس پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’سب پارٹیاں ، ایک کا نام مت لیں آپ۔‘
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے تمام پارٹیوں کو عدم اعتماد کے حوالے سے ہدایات دیں اور سب سے اس پر حامی بھری۔
ان کا کہنا تھا کہ پہل وہاں سے ہوئی تھی جس پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مہر لگادی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فیض حمید ان کے پاس آئے اور کہا جو کرنا ہے سسٹم کے اندر رہ کر کریں۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنا مستقبل کا لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم سڑکوں پر آئیں، قانون اور آئین کے تحت پرامن احتجاج کریں، اور اس وقت تک کریں کہ بالآخر یہ طے ہوجائے کہ اسٹبلشمنٹ ملک کی سیاست سے آئندہ کوئی سرکار نہیں رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس احتجاج کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ انقلاب آجائے گا اور حالات بہتر ہوجائیں گے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ دھاندلی 2018 میں بھی ہوئی تھی اب بھی ہوئی، بظاہر الیکشن میں دھاندلی کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا، افواہ ہے لاہور کی سیٹ پر نواز شریف کو جتوایا گیا، اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ الیکشن شفاف ہوئے تو 9 مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، پچھلا اتحاد حکومت بنانے کے لیے نہیں ایک تحریک کے لیے تھا۔
ان کا کہنا تھا حکومت سازی کے حوالے سے شہباز شریف میرے پاس آئے تھے، شہباز شریف کو اپوزیشن میں بیٹھنے کا کہا تو وہ جواب دیے بغیر چلے گئے، پی ٹی آئی کا وفد آئے گا تو ان سے بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ میری نظر میں پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں، ہم اسمبلی میں تحفظات کے ساتھ جا رہے ہیں، ہال میں بیٹھیں گے، مراعات انجوائے کریں گے، فیصلے کہیں اور سے آئیں گے، ہم حکومت سازی کے عمل میں حصہ نہیں لے رہے۔