Aaj Logo

شائع 12 فروری 2024 09:01pm

پوسٹل بیلٹ نے بازی پلٹ دی، جے یو آئی کو ایک اور سیٹ مل گئی

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 251 قلعہ سیف اللہ میں پوسٹل بیلٹ پیپرز کی گنتی کے بعد جمیعت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار سید سمیع اللہ کو کامیاب قرار دے دیا گیا ہے، حالانکہ اس سے قبل ووٹوں کی گنتی میں پشتونخوا میپ کے خوشحال کان کاکڑ کو کامیاب قرار دیا گیا تھا، لیکن پوسٹل بیلٹ نے نتیجہ یکسر تبدیل کیسے کردیا؟

این اے 251 قلعہ سیف اللہ، ژوب، شیرانی میں پوسٹل بیلٹ پیپرز کی گنتی کے بعد پشتونخوا میپ کے امیدوار خوشحال کاکڑ کو 93 ووٹوں سے شکست ہوئی، خوشحال کاکڑ ٹوٹل 46117 ووٹ حاصل کر سکے جبکہ کامیاب ہونے والے جے یو آئی کے امیدوار سید سمیع اللہ نے 46210 ووٹ حاصل کئے۔

پوسٹل بیلٹ میں خوشحال کاکڑ 405 جبکہ سید سمیع اللہ کو 1447 ووٹ ملے۔

پوسٹل بیلٹ پیپرز کے شمار کیے جانے کا مرحلہ گزشتہ روز شروع ہوا تھا، جس کیلئے آر اوز نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں اور ان کے نمائندوں کو طلب کیا تھا، اس دوران پوسٹل بیلٹ پیپرز کا شمار بھی نتائج میں شامل کیا گیا۔

الیکشن ایکٹ 2017 کہتا ہے کہ غیر حتمی نتائج کے اعلان کے بعد پوسٹل بیلٹ پیپرز کا شمار شروع ہوتا ہے، اور اس کیلئے آر او امیدواروں کو تاریخ اور وقت سے آگاہ کرتا ہے۔

الیکشن ایکٹ کے مطابق پوسٹل بیلٹ پیپرز کے سیل لفافے امیدوار یا نمائندوں کی موجودگی میں کھولے جاتے ہیں۔

اس کے بعد آر او پوسٹل بیلٹ کے بعد مرتب نتائج سے فارم 48 کے ذریعے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرتا ہے۔

خیال رہے کہ اگر پہلی اور دوسری پوزیشن کے امیدواروں میں ووٹوں کا فرق کم ہو تو پوسٹل بیلٹ سے نتیجہ تبدیل ہو سکتا ہے۔

اور ایسا ہی ہوا سید سمیع اللہ اور خوشحال کاکر کے ساتھ جنہیں فارم 47 کے مطابق بالترتیب 44763 اور 45712 ووٹ ملے تھے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اس مرتبہ ملک بھر سے 4 لاکھ 49 ہزار 287 پوسٹل بیلٹ پیپرز کی درخواستیں آئی تھیں، قومی اسمبلی کے لیے 2 لاکھ 6 ہزار 533 درخواستیں موصول ہوئیں، جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے لیے 2 لاکھ 42 ہزار 754 درخواستیں دی گئیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پنجاب سے 74 ہزار 274، سندھ سے 26 ہزار 649، خیبر پختونخوا سے سب سے زیادہ 81 ہزار 282 اور بلوچستان سے 60 ہزار 550 درخواستیں موصول ہوئیں۔

متعلقہ ریٹرننگ افسران نے درخواست گزار ووٹرز کو پوسٹل بیلٹ پیپرز بھجوائے تھے، بذریعہ ڈاک حق رائے دہی استعمال کرنے والوں میں جیلوں کے قیدی بھی شامل ہیں۔

Read Comments