حکومت سازی پر اہم فیصلوں کے لیے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس آج دوسرے روز بھی جاری رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار ایاز صادق کہتے ہیں ملک کی بہتری کی خاطر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر غور کر رہے ہیں، لیکن پیپلز پارٹی نے حکومت کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی نے سیاسی جماعتوں سے رابطے کیلئے 6 رکنی کمیٹی تشکیل دیدی۔
پیپلزپارٹی کی مجلس عاملہ کے آج ہوئے دوسرے اجلاس میں حکومت سازی اور الیکشن پر تفصیلی مشاورت کی گئی، اس دوران اراکین نے مختلف تجاویز پیش کیں۔
سینٹرل ایگزیکیوٹیو کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ پیپلزپارٹی وفاقی حکومت کا حصہ تو نہیں بنے گی، لیکن ن لیگ کو حکومت سازی کے لئے ووٹ دے گی۔
اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ پیپلز پارٹی مرکز میں وزارتیں نہیں لے گی، لیکن مرکز میں ن لیگ کی حکومت کے ہاتھ ضرور مضبوط کرے گی۔
پیپلزپارٹی نے 6 رکنی مذاکراتی کمیٹی کا نوٹی فکیشن جاری کردیا۔
کمیٹی میں چاروں صوبوں سے نمائندے شامل کئے گئے ہیں۔
قمرزمان کائرہ، مراد علی شاہ، شجاع خان ، سعید غنی، سردار ثنااللہ اور ندیم افضل چن کمیٹی میں شامل ہیں۔
مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اصولی فیصلہ ہے ہمیں پاکستان کے ساتھ رہنا ہے، ہم آج بھی پاکستان کھپے کا نعرہ لگاتے ہیں، ہمارا فیصلہ ہے کہ پاکستان کو بحرانوں سے نکالنا ہے۔
بلاول بھٹونے کہا کہ پیپلز پارٹی کے پاس وفاق میں حکومت بنانے کا مینڈیٹ نہیں، اس لیے خود کو وزیراعظم کیلئے پیش نہیں کرسکتا۔
بلاول کے مطابق پیپلز پارٹی مرکز میں وزارتیں نہیں لے گی۔
بلاول بھٹو نے اعلان کیا کہ حکومت کی تشکیل کیلئے ن لیگ کو وزیراعظم کیلئے ووٹ دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اختلافات کے باوجود انتخابی نتائج کو قبول کریں گے، انتخابی نتائج ملک کے وسیع تر مفاد میں قبول کریں گے، ہم اپنے اعتراضات متعلقہ فورمز پر ضرور اٹھائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ وہ ایشو ٹو ایشو اور اہم مواقع پر (ن لیگ کو) ووٹ دے گی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہم ایک کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں جو دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہم 18 ماہ کے لیے ہم ن لیگ کے ساتھ حکومت میں رہے، جس پر میری جماعت کے لوگوں نے کافی اعتراضات اور ایشو اٹھائے ہیں۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے پاس بھی اکثریت نہیں ہے جبکہ پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی سے مذاکرات نہیں کرے گی۔ ان کے مطابق اب ایسے میں پھر دوبارہ انتخابات ہوں گے جو ملک کے استحکام کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہمیں ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی نظر آ رہا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ہم پاکستان کو اس بحران سے نکالیں۔ اور اس ملک کو وہاں لے کر جائیں جو اس ملک کے لوگوں کا حق ہے۔ ان کے مطابق ’عوام مزید عدم استحکام نہیں چاہتی، وہ سیاستدانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ بحرانوں سے ملک کو نکالیں۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم ملک میں دوبارہ استحکام لے کر آنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام چاہتے ہیں سیاسی جماعتیں مل کر کام کریں، عوام چاہتے تو کسی ایک جماعت کو ووٹ دے سکتے تھے، افسوس کہ پی ٹی آئی کے فیصلے جمہوریت کے حق میں نہیں، جمہوریت کو نقصان ہوا تو نقصان پاکستان اور عوام کا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جمہوری عمل کے تسلسل کے لئےعوام پیپلز پارٹی کی طرف دیکھتی ہے، پیپلز پارٹی حکومت میں وزارتیں نہیں لے گی، ہم ووٹ دیں گے مگر پوائنٹ ٹو پوائنٹ اعتراض بھی اٹھائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم سندھ اور بلوچستان میں حکومت بنانےکی کوشش کریں گے، صدارت، اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کیلئے امیدوار کھڑے کریں گے، آئینی عہدے ہمارا حق ہیں، صدارتی امیدوار آصف زرداری ہوں گے، چاہتا ہوں کہ آصف زرداری صدارت کیلئے الیکشن میں حصہ لیں، ملک جل رہا ہے، آصف زرداری ملک کو بچاسکتے ہیں، ضروری ہے کہ آصف زرداری صدارت کاعہدہ سنبھالیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں حکومت اور وزیراعظم اپنی مدت پوری کرے، ملک سے نفرت اور تقسیم کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہئے، پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں اپنے لئے نہ سوچیں، تمام جماعتوں کو پاکستان کی فکر کرنی چاہئے، اس صورتحال کا فائدہ ملک دشمن اٹھا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں انتہاپسندی کی سیاست چھوڑنا ہوگی، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انتخابی مہم میں مخالفین کی تعریف کروں، انتخابی مہم کے دوران اپنے اعتراضات اٹھانا سب کا حق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام مجھے مینڈیٹ دیتے تو ضرور وزیراعظم بنتا، صرف اپنا سوچتا تو خاموش ہوکر بیٹھ جاتا، اب خان جانے اور میاں صاحبان جانیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ مفاہمت نہیں پاکستان اور عوام سے محبت ہے،اس فیصلے سے میری سیاست کو نقصان ہوگا لیکن ہم نظام کو چلانا چاہتے ہیں، میں انتہاپسندی کی سیاست نہیں کرسکتا، میں اپنےمفاد میں کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں انتخابی اصلاحات کرنی ہوں گی تاکہ آئندہ کوئی انگلی نہ اٹھاسکے، دھرنا، احتجاج اورلانگ مارچ سے ملک کو نقصان ہوگا، میں اپنے تمام اعتراضات متعلقہ فورمز پر اٹھاؤں گا۔
گزشتہ روز بھی پاور شیئرنگ فارمولے پر پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اہم اجلاس سابق صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی صدارت اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا۔
اجلاس کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی تھی، شیری رحمان نے بتایا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا فیصلہ کیا ہے، رابطوں کیلئے کمیٹی بنائی جائے گی۔
انھوں نے کہا تھا کہ اجلاس میں تین اہم باتوں سمیت الیکشن پر تفصیلی گفتگو ہوئی ، بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کو مبارکباد دی گئی کہ انہوں نے الیکشن مہم میں جان ڈالی۔
شیری رحمان نے کہا تھا کہ سرفراز بگٹی بلوچستان میں زیادہ متحرک ہوں گے۔
اس سے پہلے ذرائع نے پیپلزپارٹی کے سی ای سی اجلاس سے متعلق بتایا تھا کہ بلاول بھٹو نے ن لیگ سے ملاقات کے حوالے سے سی ای سی اراکین کو آگاہ کیا، جب کہ آصف زرداری نے دیگر جماعتوں سے رابطوں سے آگاہ کیا۔
آصف زرداری نے کہا تھا کہ سندھ میں دیگر جماعتوں کو شمولیت کی دعوت دی جائےگی۔
بلاول کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی طرف سےاہم عہدوں کی پیشکش کی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ سی ای سی ’اراکین کا کہنا تھا کہ وزارت عظمیٰ کے حصول کیلئے باقی جماعتوں سے رابطے کیے جائیں، اگر بلاول وزیراعظم نہیں بنتے تو اپوزیشن کا کردار ادا کیا جائے‘۔
اجلا س میں حتمی فیصلہ سازی کا اختیار آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو دینے پر اتفاق کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ اجلاس میں پیپلزپارٹی کی بلوچستان میں حکومت سازی پر امور زیرغور آئے، بلوچستان میں حکومت سازی کیلئے جے یو آئی ف، بی اے پی سمیت آزاد اراکین سے رابطوں پراتفاق ہوا۔ جب کہ اراکین نے رائے دی کہ ’بلوچستان میں وزیراعلیٰ پیپلزپارٹی کا ہونا چاہیے‘۔
اجلاس میں نیئربخاری، شیری رحمان، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی ، شازیہ مری، سرفرازبگٹی شریک ہوئے۔
اس کے علاوہ تاج حیدر ، سعیدغنی، مراد علی شاہ ، عبدالقادر پٹیل اور دیگر بھی اجلاس میں شریک تھے۔
ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کے سی ای سی اجلاس میں ن لیگ کی تجاویز پیش کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں :
الیکشن سے متعلق آرمی چیف سےکوئی بات چیت نہیں ہوئی، وزیراعظم
جی ڈی اے کا حیدرآباد بائی پاس پر دھرنا دینے کا اعلان
اس حوالے سے ذرائع نے بتایا تھا کہ حکومت سازی سے متعلق لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا، بلاول بھٹو پاور شیئرنگ فارمولے پر شرکا کو اعتماد میں لیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز صدر ن لیگ شہباز شریف نے بلاول ہاؤس لاہورمیں آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات کی تھی، جس میں پی پی نے مسلم لیگ سے تعاون کرنے کا پیغام دیا تھا اور ساتھ ہی معاملہ سی ای سی اجلا س میں رکھنے کا کہا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار ایاز صادق کہتے ہیں ملک کی بہتری کی خاطر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر غور کر رہے ہیں۔