بلوچستان اسمبلی کی تمام 51 نشستوں کے نتائج سامنے آ گئے ہیں، جن کے مطابق بظاہر پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام (ف) اور مسلم لیگ (ن) لیڈ کرتے نظر آرہے ہیں، جنہوں نے بالترتیب 11، 11 اور 10 نشستیں حاصل کرلی ہیں، ان کے علاوہ دیگر جماعتوں نے بھی نشتسیں حاصل کی ہیں جیسے کہ آزاد امیدوار چھ، بلوچستان عوامی پارٹی چار، نیشنل پارٹی تین اور عوامی نیشنل پارٹی دو نشستوں پر کامیاب ہوئیں، اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، بی این پی عوامی اور حق دو تحریک نے ایک ایک نشست حاصل کی۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے، یہ تو ممکن نہیں رہا کہ صوبے میں کسی ایک جماعت کی حکومت قائم ہو، اب سیاسی جوڑ توڑ کے زریعے ہی ایک مخلوط حکومت قائم ہونی ہے، جس کیلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان ملاقاتوں اور مذاکرات کا سلسلہ چل نکلا ہے۔
لیکن صوبے کے ماضی اور موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے تو نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب پر تین بڑی جماعتوں اور پرانے اتحادیوں میں جنگ چھڑتی نظر آرہی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی ملاقات اہم ثابت ہوسکتی ہے، جبکہ مولانا فضل الرحمان کے 11 ارکان بھی کافی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ جب تک یہ تین جماعتیں آپس میں نہیں بیٹھتیں اور متفق نہیں ہوتیں کسی ایک نام پر اتفاق ہوتا نظر نہیں آرہا، لیکن اگر یہ تینوں جماعتیں مرکز میں ایک ساتھ بیٹھ جاتی ہیں تو بلوچستان میں بھی ان کا ایک ساتھ بیٹھنا ممکن ہوسکتا ہے۔
ویسے تو وزارتِ اعلیٰ کے نئے امیدواروں کے نام زیرگردش ہیں، لیکن حتمی فیصلہ ان ملاقاتوں میں ہی ہوگا۔
وزارت اعلیٰ کیلئے مضبوط نام فی الحال سرفراز بگٹی کا سامنے آرہا ہے جو پیپلز پارٹی کیلئے اہم ہیں اور انہیں نگراں وزیر داخلہ بھی بنایا جاچکا ہے، تاہم، سرفراز بگٹی نے وزیراعلیٰ بلوچستان بننے سے متعلق خبروں کی تردید کردی ہے۔
اب دیگر ناموں کی طرف دیکھا جائے تو جام کمال خان اور جے یو آئی کے نواب اسلم رئیسانی بھی مضبوط امیدوار ہیں، ان کے علاوہ چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی اپنی چار نشستوں کے ساتھ جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور چاہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی انہیں نامزد کرے۔
اس مرتبہ ہوئے انتخابات کے نتائج نے سابق اتحادیوں کو ایک دوسرے کے مخلاف کھڑا کردیا ہے، جہاں سے نیشنل پارٹی کو شکست ہوئی وہاں پیپلز پارٹی جیتی، جہاں پشتونخوا میپ ہاری وہاں مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئی جس سے نواز شریف اور محمود خان اچکزئی کے برادرانہ تعلقات کو ٹھیس پہنچی، ایسا ہی کچھ اختر مینگل اور مولانا عبدالغفور حیدری کے ساتھ ہوا، اختر مینگل مولانا عبدالغفور حیدری سے جیتی ہوئی سیٹ ہار گئے۔
اسی نااتفاقی اور غیریقینی کی صورت حال کی بنا پر لوگوں کی نظریں لاہور اور اسلام آباد کی طرف ہیں، کیونکہ بلوچستان کے فیصلے وہیں ہوتے آئے ہیں۔
پی بی 9 کوہلو کا حتمی نتیجہ بھی اہم ہے، کیونکہ اگر وہاں نتیجے میں تبدیلی آتی ہے تو ممکن ہے وہاں سے جیتا امیدوار وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہوجائے۔
ایک دوسرا فارمولہ یہ بھی ہے کہ مرکز میں سپورٹ کیلئے مولانا فضل الرحمان بلوچستان کی وزارت اعلیٰ مانگ لیں، لیکن ان کے پاس اس کیلئے امیدوار ایک ہی ہے، کیونکہ عموماً بلوچستان کا وزیراعلیٰ بلوچ ہی ہوتا ہے اس لیے ان کے پاس مضبوط آؐیدوار نواب اسلم رئیسانی ہی بچتے ہیں، لیکن ان کی سیٹ بھی خطرے میں نظر آتی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی ری کاؤنٹنگ میں ان کے خلاف گئی ہوئی ہے۔