قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر انتخابات کے بعد اب اگلا مرحلہ سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دیئے جانے کا ہے جس کے بعد ان کی نشستوں کی مجموعی تعداد بڑھ جائے گی اور اس تعداد کی بنیاد پر ہی اکثریت رکھنے والی جماعتیں حکومتیں بنائیں گی۔
سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں الیکشن کمیشن کے ایک فارمولے کے تحت دی جاتی ہیں۔ تاہم اس فارمولے کے حوالے سے بہت سے سینئر صحافی بھی ابہام کا شکار ہیں اور کچھ سنگین غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
مثلا قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی 70 مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہر3.5 یا 4.5 جنرل نشستوں پر ایک مخصوص نشست ملے گی۔
2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے 116 جنرل نشستیں حاصل کی تھیں اور اسے 33 مخصوص نشستیں ملی تھیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کو 64 جنرل نشستوں پر 18 مخصوص نشستیں اور پیپلز پارٹی کو 43 جنرل نشستوں پر 11 مخصوص نشستیں ملی تھیں۔ یہ ہر 3.5 جنرل نشستوں کے بدلے ایک مخصوص نشست کا تناسب بنتا ہے۔ اور بیشتر لوگ اسی بنا پر غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
2018 کے انتخابات میں ہی جی ڈی اے کو 2 جنرل نشستوں پر خواتین کی ایک مخصوص نشت ملی تھی جبکہ اسی الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ کو چھ جنرل نشستوں پر ایک مخصوص نشست ملی تھی۔ جی ڈی اے اور متحدہ قومی موومنٹ دونوں کے جنرل نشستوں پر امیدوار ایک ہی صوبے یعنی سندھ سے منتخب ہوئے تھے۔
لہذا ہر 3.5 یا 4.5 نشستوں کے بدلے ایک مخصوص نشست کا دعویٰ درست نہیں۔
مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے ایک غلط تاثر یہ رائج ہے کہ یہ تقسیم وفاقی سطح پر ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ ہر 3.5 یا 4.5 نشستوں کے بدلے ایک نشست ملتی ہے
مثال کے طور پر اسلام آباد میں کچھ ذرائع نے ہمیں یہ فارمولا بتایا۔
بدقسمتی سے یہ دعویٰ حقیقت سے بہت دور ہے اور اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ 2018 میں جی ڈی اے کو دونشستوں کے بدلے ایک مخصوص نشست کیسے ملی اور ایم کیو ایم کو چھ کے بدلے بھی ایک ہی نشست کیوں دی گئی۔
مخصوص نشستوں کا تعین الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک فارمولے کے تحت کرتا ہے جس کا ذکر الیکشن رولز 2017 کے باب نمبر 6 میں موجود ہے۔ تاہم فارمولا وہاں درج نہیں کیا گیا۔ صرف یہ لکھا گیا کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کا حساب لگائے گا۔
آئین پاکستان کے تحت قومی اسمبلی میں خواتین کی 60 مخصوص نشستیں اور اقلیتوں کی 10 مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔ خواتین کی مخصوص نشستیں صوبوں میں ایک خاص تناسب سے تقسیم کی گئی ہیں۔ پنجاب کو خواتین کی 32، سندھ کو 14، خیبرپختونخوا کو 10 اور بلوچستان کو 4 نشستیں دی گئی ہیں۔
اقلیتوں کی نشستوں پر اس نوعیت کی پابندی نہیں اور کسی بھی صوبے سے کم یا زیادہ اقلیتی رکن قومی اسمبلی آسکتے ہیں۔
فارمولے کا اگلا حصہ زیادہ اہم ہے اور یہی پی ٹی آئی کے آزاد اراکین کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
الیکشن رولز 2017 کے باب 6 کے مطابق مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حساب کتاب کے وقت آزاد اراکین کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ آزاد اراکین البتہ تین دن کے اندر اندر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو وہ اس جماعت کا حصہ تصور ہوں گے اور ان کی نشستیں حساب کتاب میں شمار کرلی جائیں گی۔
2018 میں جب سندھ سے قومی اسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشستوں کا تناسب نکالا گیا تو صوبے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے اراکین کی سیاستی وابسگتی کو سامنے رکھا گیا۔ سندھ سے پیپلز پارٹی کے 35 اراکین قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اسی طرح سندھ سے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کی 16 جنرل سیٹیں ملی تھیں۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو 6 اور جی ڈی اے کو سندھ سے قومی اسمبلی کی 2 جنرل نشستیں ملی تھیں۔ قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر منتخب ان اراکین کی مجموعی تعداد 59 تھی۔
الیکشن کمیشن اپنے فارمولے میں آزاد اراکین اسمبلی کو شمار نہیں کرتا۔ اسی طرح ان حلقوں کو بھی شمار نہیں کیا جاتا جن کے نتائج ابھی نہ آئے ہوں۔ 2018 میں سندھ سے صرف ایک آزاد رکن اسمبلی منتخب ہوا تھا جبکہ ایک حلقے کا نتیجہ زیر التوا تھا۔ یہ دونوں نشستیں شمار نہیں کی گئی تھیں۔
لہذا سیاسی جماعتوں کے اراکین کی مجموعی تعداد 59 کو سندھ کیلئے خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد 14 سے تقسیم کیا گیا۔ جس کا جواب 4.21 آیا۔
(یہ نشستوں کی تقسیم کا کوٹہ تھا۔ لیکن کوٹہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر 4.21 نشست پر ایک سیٹ مل جائے گی اور اس سے کم پر نہیں ملے گی۔ یہ غلط فہمی عام پائی جاتی ہے جو درست نہیں۔)
اب سیاسی جماعتوں کی جنرل نشستوں کی تعداد کو اس کوٹہ یا نمبر یعنی 4.12 سے تقسیم کیا گیا۔ اس بنا پر پیپلز پارٹی کو (35/4.21 = 8.31) 8 نشستیں ملیں۔
پی ٹی آئی کو (16/4.21 = 3.80) 4 نشستیں ملیں۔
ایم کیو ایم کی 6 نشستوں کو جب 4.21 سے تقسیم کیا گیا تو جواب 1.43 آیا۔
الیکشن کمیشن کے فارمولے میں راؤنڈنگ آف rounding off کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر جواب 1.43 کے بجائے 1.53 ہوتا (یعنی 1.50 سے اوپر) تو ایم کیو ایم کو دو نشستیں مل جاتیں۔
چونکہ ایسا نہیں ہوا تو ایم کیو ایم کو چھ جنرل نشستوں پر ایک سیٹ ملی۔
اس کے بعد ایک سیٹ بچ گئی جو جی ڈی اے کو صرف 2 سیٹوں پر مل گئی۔
8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد بھی اسی فارمولے کے تحت مخصوص نشستیں تقسیم ہوں گی۔
الیکشن کمیشن کے رولز پی ٹی آئی کے لیے بطورایک سیاسی گروپ خطرہ ہیں۔
پنجاب سے ہفتہ کی شام تک قومی اسمبلی کی 54 نشستوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین منتخب ہو چکے تھے۔ خیبرپختونخوا سے 38 اور بلوچستان سے پی ٹی آئی کا ایک رکن منتخب ہوا تھا۔
اگر قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کا بطور سیاسی جماعت وجود بحال ہو جاتا ہے یا اس کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کسی دوسری جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں تو اسے الیکشن کمیشن کے فارمولے کے تحت پنجاب سے خواتین کی 13 نشستیں مل سکتی ہیں۔ اسی طرح خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کو خواتین کی 7 نشستیں مل سکتی ہیں۔
پنجاب میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 141 ہے اور خواتین کی نشستوں کی تعداد 32 ہے۔ اس حساب سے کوٹہ 4.40 بنتا ہے۔ لیکن چونکہ دو حلقوں پر نتائج رک گئے ہیں تو یہ کوٹہ 4.3 بنے گا۔
اسی طرح خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 45 ہے۔ ایک پر الیکشن نہیں ہوا۔ اس طرح کوٹہ 4.4 بنتا ہے۔
پنجاب کے مذکورہ بالا کوٹہ کے حساب سے مسلم لیگ (ن) کو پنجاب سے خواتین کی 16 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔
تاہم پنجاب اور خیبرپختوانخوا سے پی ٹی آئی کو خواتین کی 20 نشستیں ملنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کو کسی سیاسی جماعت کا حصہ تصور کیا جائے۔
جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان مخصوص نشستوں کی تقسیم کے وقت آزاد اراکین کو شمار نہیں کرتا۔
ایسی صورت میں پنجاب میں اگر محض پی ٹی آئی اراکین کو ہی شمار نہ کیا جائے تو خواتین کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کا کوٹہ 2.65 رہ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو جائے گی بلکہ دوسری جماعتوں کو فائدہ پہنچے گا۔
مسلم لیگ(ن) کو صرف پنجاب سے قومی اسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے 25 مل سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بھی تین نشستیں مل سکتی ہیں اور دیگر چار نشستیں باقی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ق) کو ملیں گی۔
پی ٹی آئی حمایت یافتہ اراکین کے آزاد رہنے اور مخصوص نشستوں کی تقسیم میں ان کے شمار نہ ہونے کے نتیجے میں مسلم لیگ(ن) قومی اسمبلی میں ہر طرح سے سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔
آئندہ حکومت کی تشکیل کا بڑا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کیسے ہوتی ہے۔