پاکستان کی خواتین سیاستدانوں کی زندگی میں ایسے کئی لمحات آئے ہیں، جو کہ سب کی توجہ بخوبی حاصل کر لیتی ہیں۔
کچھ ایسی ہی مشہور اور مقبول خواتین سیاستدانوں کی زندگی کے دلچسپ واقعات صارفین کو اپنی جانب مبذول کرتے ہیں۔
شہلا رضا:
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سابق ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کا شمار پاکستان کی مقبول ترین خواتین سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی شہلا رضا نے اگرچہ پارٹی منشور اور بیانیے کو ہر ٹی وی چینل میں بطور مہمان جاندار انداز سے پیش کیا مگر باہمت اور نڈر سمجھی جانے والے شہلا رضا پر ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکی تھیں۔
دراصل ہوا کچھ یوں کہ 2005 میں عید کے تیسرے دن شہلا رضا کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تھا، ان کی گاڑی پانی سے بھرے نالے میں جا گری تھی، جس کے باعث ان کے دونوں بچے 13 سالہ بیٹی اور 11 سالہ بیٹا اللہ کو پیارا ہو گیا تھا۔
اس پورے واقعے نے جہاں انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا، وہیں گزشتہ کئی برسوں میں سوشل میڈیا پر انہیں ایسی کئی باتیں سننے کو ملیں، جو انہیں افسردہ کر دیتی ہیں، ایک انٹرویو میں شہلا کا کہنا تھا کہ سیاست میں میرے بچوں کو گھسیٹا جاتا ہے، حلانکہ وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔
ڈاکٹر یاسمین راشد:
پاکستان تحریک انصاف کی مقبول ترین خاتون رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کا شمار بھی ان چند خواتین میں ہوتا ہے، جو کہ اپنی بیماری کے باوجود بھی بطور وزیر اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوئیں۔
بریسٹ کینسر میں مبتلا رہنے والی ڈاکٹر یاسمین راشد نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وزیر صحت پنجاب کے طور ذمہ داریاں نبھائی تھیں، تاہم اس دوران کورونا کا سخت وقت بھی تھا، اس سب میں بھی قرنطینہ سینٹرز کا دورہ کرتی دکھائی دیں۔
یہاں تک کے کیموتھراپی سے ان کے بال تک گر گئے لیکن اس سب میں بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔
بے نظیر بھٹو:
سابق وزیر اعظم اور پاکستان کی مقبول ترین خواتین میں صف اول میں شمار کی جانے والی بے نظیر بھٹو نے جہاں پاکستانی خواتین کو کامیابی کا ایک نیا پیغام دیا، وہیں اپنے مخالفین کو کس طرح برداشت کیا جائے اور جواب دیا جائے، وہ پاکستانی خواتین عملی طور پر بتا گئیں۔
بے نظیر بھٹو کی زندگی کا مشکل ترین لمحہ وہ تھا، جب ان کے والد کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، جہاں پھانسی سے ایک دن پہلے کی رات بے نظیر پر قیامت بن کر ٹوٹی تھی، وہ رات اس حد تک خوفناک تھی کہ اس کا اندھیرا ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔بے نظیر اپنی سوانح عمری ’ڈاٹر آف دا ایسٹ‘ میں لکھتی ہیں ’مجھے معلوم تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ میری والدہ کو بھی معلوم تھا۔ لیکن ہم دونوں اس کو قبول نہیں کرپا رہے تھے۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ ضیا الحق میرے والد کا قتل کرنے کو تیار تھے۔‘