ملکی سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کسی بھی صحافی، تجزیہ کار یا سیاسی رہنما سے سندھ کے حوالے سے پوچھیں تو ایک ہی بات کہہ دے گا کہ کراچی کو چھوڑ کر سندھ کے باقی تمام اضلاع میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوجائےگی، شاید یہی وجہ ہے کہ وفاقی سطح کی کوئی جماعت نہ سندھ کے ان علاقوں پر دھیان دیتی ہے، نہ ہی ان کی پالیسیوں میں کہیں سندھی بولنے والے ووٹرز کے لیے کوئی خاص جگہ ہوتی ہے۔
سندھ میں اس دفعہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ کراچی میں پیپلز پارٹی کے ووٹرز میں اضافہ ہوا ہے، باقی تمام اضلاع میں پیپلزپارٹی مخالف ووٹ بڑھا ہے، مگر اس کے لیے مشکل یہ ہے کہ کوئی متبادل ہی نہیں۔
2008 سے شروع ہونے والی آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، پیپلز پارٹی سندھ کے تمام اضلاع میں مخالف الیکٹیبلز کو کسی نہ کسی طرح اپنی کیمپ میں شامل کرچکی ہے، ماسوائے چند رہنماؤں کے، جن میں لیاقت جتوئی، ڈاکٹر ابراہیم جتوئی، ڈاکٹر ارباب غلام رحیم وغیرہ شامل ہیں۔
اس دفعہ الیکشن سے پہلے تو لگ رہا تھا کہ الیکشن رسمی کارروائی کے سوا کچھ نہیں ہونگے، مگر جے یو آئی نے جی ڈی اے کے ساتھ مل کر الیکشن کا ماحول پیدا کرلیا، انتخابی مہم شروع کرتے وقت تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ کتنی بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کا مخالف ووٹر موجود ہے، جو الیکشن کا نقشہ بدل سکتا ہے، اس بات کا انداہ نہ جے یو آئی کو تھا، نہ ہی جی ڈی اے کو، اگر ان کی تیاری اور حکمت عملی بہتر ہوتی تو حیرت انگیز نتائج آسکتے تھے، مگر بغیر تیاری کے بھی شمالی سندھ کے اضلاع گھوٹکی، جیکب آباد، کشمور، شکارپور، لاڑکانہ اور سکھر میں کچھ حلقوں پر کانٹے کا مقابلہ ہے۔
جے یو آئی کے صوبائی رہنما مولانا راشد محمود سومرو کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ان کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں سات نشستیں دینے کی پیش کش کی، جو انھوں نے ٹھکرادی۔ آزاد ذرائع سے اس دعوے کی تصدیق تو نہیں ہوسکی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے مولانا راشد محمود سومرو اور ان کے بھائی ناصر محمود سومرو کو ایڈجسٹ کرنے کی پیش کش ضرور کی تھی۔
لاڑکانہ شہر کی قومی اسمبلی کی نشست (این اے 194) سے بلاول بھٹو امیدوار ہیں، جن کا مقابلہ جے یو آئی کے راشد محمود سومرو کر رہے ہیں، بلاول بھٹو ضلع قمبر شہدادکوٹ کی اس نشست (این اے 196) سے بھی انتخاب لڑ رہے ہیں جو روایتی طور پر شہید بے نظیر بھٹو کی نشست تھی۔ وہاں پر چانڈیو اور مگسی برادری کے بااثر سرداروں کے اندرونی اختلافات بھی پارٹی کے لیے دردسر بنے ہوئے ہیں۔
نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی مشکلات میں کچھ اضافہ ہوا ہے، ایک نشست (این اے 192) ہے جو کشمور، جیکب آباد اور شکارپور اضلاع کی حدود میں بنائی گئی ہے، وہاں پیپلز پارٹی کے میر شبیر علی بجارانی اور جے یو آئی کے ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کے درمیاں مقابلہ ہے۔ ایک اور نشست( این اے 191) ہے جو کشمور کی تین تحصیلوں اور ضلعہ جیکب آباد کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے، وہاں پیپلزپارٹی کے نوجوان امیدوار علی جان مزاری کا جے یو آئی کے میر شاہ زین بجارانی سے مقابلہ ہے، اس حلقے پر بہت ہی سخت مقابلا متوقع ہے۔
کئی اضلاع میں ٹکٹوں کی تقسیم پر پیپلزپارٹی کے اندرونی اختلافات سے بھی اینٹی پیپلز پارٹی ووٹ میں اضافہ ہوا ہے، جیکب آباد اور گھوٹکی میں پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی وزرا آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔
جیکب آباد (این اے 190) میں پیپلز پارٹی کے اعجاز جکھرانی کے مقابلے میں محمد میاں سومرو آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں، ان کو جے یو آئی کی حمایت حاصل ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے سندھ کا سب سے بڑا ضلعہ خیرپور پیرپگاڑا کا آبائی ضلع ہے۔ جہاں ان کے مریدوں اور عقیدت مندوں کی بڑی تعداد موجود ہے، وہاں پیپلز پارٹی کے روایتی جیلانی اور وسان خاندان بھی موجود ہیں۔ فضل شاہ جیلانی (این اے 203) اور ہالاروسان (پی ایس 27) سے امیدوار ہیں۔ جب کہ دونوں خاندانوں کے بالترتیب چار اور دو افراد میدان مین ہیں۔
اس دفعہ جی ڈی اے نے لاڑکانہ شہر میں دوبار صوبائی اسمبلی کی نشست پر پیپلز پارٹی امیدوار کو ہرانے والے معظم عباسی کو خیرپور میں قومی اسمبلی ایک نشست (این اے 204)سے امیدوار بنایا ہے، وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اس حلقے میں عباسی کلہوڑا برادری کے ووٹ صرف معظم عباسی کو ہی مل سکیں گے، اس نشست پر دلچسپ مقابلہ ہے۔
حیدرآباد کی دو قومی (این اے 218 اور این اے 219) اور تین صوبائی نشستوں پر ایم کیو ایم کی گرفت مضبوط ہے، جبکہ ایک صوبائی نشست (پی ایس 60) پر ایاز لطیف پلیجو اور سابق صوبائی وزیر جام خان شورو کے درمیاں مقابلہ انتہائی سخت ہے۔
ٹنڈو محمد خان کی ایک نشست (پی ایس 67) سے ڈاکٹرقادر مگسی بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔ یہ شاید 1988 کے بعد پہلی بار ہوا ہے کہ سندھ کے دانشور، لکھاری، سول سوسائٹی اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے افراد بھی ایاز لطیف پلیجو اور ڈاکٹر قادر مگسی کی حمایت میں انتخابی مہم کا حصہ بن رہے ہیں، اس لیے دونوں نشستوں پر ایسے مقابلے ہیں، جن کا کم از کم پیپلز پارٹی کو اندازہ نہیں تھا۔
بدین میں مرزا فیملی کی پوزیشن اچھی ہے مگر گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران وفاقی وزیر رہنے کے باوجود ڈاکٹر فہمیدہ مرزا علاقے کی ترقی یا عوام کو ریلیف دلانے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہ کرسکیں، جس کا بھی اثر پڑسکتا ہے، سجاول اور ٹھٹہ میں پیپلز پارٹی کو کوئی بڑی مشکل درپیش نہیں۔
سانگھڑ میں (این اے 209 پر) شاہنواز جونیجو کے صاحبزادے محمد خان جونیجو ٹکٹس کی تقسیم پر اختلافات کے بعد پیپلز پارٹی چھوڑ کر جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
مٹیاری میں (این اے 2016 پر) ن لیگ سندھ کے صدر بشیر میمن پیپلز پارٹی کے مخدوم جمیل الزمان کے خلاف امیدوار ہیں، میمن برادری کا حلقے میں اچھا اثر و رسوخ ہونے کے باعث وہاں بھی اچھا مقابلہ ہے۔
مجموعی طور پر پیپلز پارٹی سندھ سے انتخابی معرکہ تو شاید سرکرلے مگر اگلی بار الیکشن جیتنے کے لیے ان کو مزید محنت کرنی پڑے گی، سندھ کے عوام کو اب نعروں سے لبھانا شاید اتنا آسان نہیں رہے گا۔