پاکستان میں عام انتخابات سے قبل مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا انفلوئنسرز ’میڈیا سینسرشپ‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی حریفوں کو آن لائن ہدف بنا رہے ہیں۔
پاکستان کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت پاکستابن تحریک انصاف کے بانی عمران خان مختلف مقدمات میں جیل میں قید ہیں اور پارٹی رہنماؤں پر کریک ڈاؤن ، ورچوئل جلسوں کے دوران سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کے باعث حامیوں کی جانب سے سینسر شپ اور پابندیاں عاید کیے جانے کے دعوے سامنے آرہے ہیں۔
پی ٹی آئی پاکستان کی 2 بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اورپیپلزپارٹی میں سے مسلم لیگ ن کو اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتی ہے اور عام تاثر ہے کہ اس بار ن لیگ کو فوج کی حمایت حاصل ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں جب معلومات کا خلاء موجود ہے تو انفلوئنسرز فائدہ اٹھاتے ہوئے غیرمصدقہ معلومات کے پھیلاؤ میں مصروف ہیں۔
انٹرنیٹ پرریسرچ کرنے والے گروپ ’بولو بھ‘’ کے ڈائریکٹر اور صحافی اسامہ خلجی نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ ’پی ٹی آئی کی ہر قسم کی کوریج کو سینسر کر رہے ہیں اور ایسا آن لائن بھی کیا جا رہا ہے۔
انٹرنیٹ کی مانیٹرنگ کرنے والے پلیٹ فارم ’نیٹ بلاکس‘ کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ سے منسلک مسائل کا براہ راست تعلق پی ٹی آئی کے آن لائن جلسوں سے ہے۔ نیٹ بلاکس بانی ایلپ ٹوکر کے مطابق واضح طور پرنظرآرہا ہے کہ جب بھی عمران خان کی جانب سے آن لائن تقریریں کی گئیں تو ہمیں انٹرنیٹ کی بندش دیکھنے کو ملی۔
انہوں نے کہا کہ ان معلومات کو بلیک آؤٹ کرنے کے باعث لوگ اپنے طور پر مصدقہ معلومات کی تلاش میں نکلتے ہیں اور مفروضے بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
م صورتحال سے نمٹنے کے لیے پی ٹی آئی نے جدید طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلائی جس میں مصنوعی ذہانت اور ٹک ٹاک جلسے شامل ہیں۔
دسمبر 2023 میں پی ٹی آئی کی جانب سے مصنوعی ذہانت کا سہارا لیتے ہوئے عمران خان کی تقریر ایک آن لائن جلسے میں نشر کی گئی۔
پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ جبران الیاس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے کیسے عمران خان کی غیر موجودگی میں نئے طریقے آزمائے ۔
جبران الیاس کے مطابق ، ’ہم نے کبھی ایسی سیاسی ریلی کا انعقاد نہیں کیا تھا جس میں عمران خان خود موجود نہ ہوں۔ چاہے وہ کوئی جلسہ ہو یا ورچوئل ایونٹ۔ ہم نے جو کچھ بھی کیا وہ ضرورت کے تحت کیا۔‘
پارٹی کی جانب سے لائیو سوشل میڈیا ریلیوں کا انعقاد بھی کیا گیا جہاں وہکارکنوں تک بغیر کسی کریک ڈاؤن کے پہنچ سکتے تھے۔ جبران الیاس نے کہا کہ جماعت کی جانب سے الیکشنز سے پہلے ٹک ٹاک پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ پلیٹ فارم نوجوانوں اور دیہی علاقوں میں بہت مقبول ہے۔
اسامہ خلجی کے مطابق اس حکمتِ عملی کے ساتھ پی ٹی آئی نے ایسے انفلوئنسرز کے ساتھ بھی رابطے کیے جو اس پارٹی کے حامی ہیں ۔
پی ٹی آئی آفیشنل اکاؤنٹ کے ذریعے ایسے انفلوئنسرز کی پوسٹس کو لائک اور ری پوسٹ کیاجا رہا ہے جن کے لاکھوں فالوورز ہیں اوروہ روزانہ متعدد ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں۔کچھ انفلوئنسرز الیکشن سے قبل عام لوگوں تک پہنچنے کے حوالے سے انتہائی اہم ثابت ہوئے ہیں اور اس بارے میں بھی پی ٹی آئی کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔
تاہم اسامہ خلجی کے مطابق ان اکاؤنٹس سے پوسٹ کی گئی معلومات مصدقہ ہونے کے حوالے سے خدشات موجود ہیں اوران کے دعوے حقیقت سے دور معلوم ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ، ’یوٹیوبرز کو فائدہ ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ ویوز اوراس کے بدلے پیسے ملیں گے،اس لیے وہ اپنے پاس موجود معلومات میں سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
اسامہ خلجی کے مطابق ’جعلی خبریں اب سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعے لوگوں میں پھیل رہی ہیں۔ مصدقہ معلومات کے فقدان کے درمیان ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے جس میں لوگ اپنی کہانیاں بنا رہے ہیں۔‘
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد کا کہنا ہے کہ نوجوان پاکستانیوں کے لیے یوٹیوبرزکی معلومات کا اہم ذریعہ ہیں۔ ان کے دعوے بعد میں ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پربھی آ جاتے ہیں، جہاں غلط معلومات سے گمراہ ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
پی ٹی آئی کے حامیوں پر سوشل میڈیا کو غلط معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کرنے کا الزام ماضی میں بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔
فرحان ورک کو اس سے قبل پاکستانی میڈیا میں خاصے بدنام ٹرول کے طور پرجانا جاتا تھا، وہ پی ٹی آئی حامی سوشل میڈیا ٹرول کی حیثیت سے 2020 تک پارٹی سے منسلک رہے۔
انھوں نے پی ٹی آئی کے حق میں ٹرولنگ کرنے، جماعت کے مخالفین کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے اور غلط معلومات پھیلانے کا اعتراف کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ وہ مسلسل ’پی ٹی آئی کے ناقدین کو ٹرول کرتے‘ اور ٹوئٹر پر اُن پر ’ذاتی حملے‘ کرتے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے ہیش ٹیگز بناتے اور جھوٹی کہانیاں گھڑتے۔
فرحان رعرک کے جانے کے بعد سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تو تبدیل ہوئے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی میں تبدیلی نہیں آئی۔
اکثر اوقات انفلوئنسرز عمران خان کا تشخص بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک اکاؤنٹ نے پوسٹ کیا کہ آسٹریلیا نے ورلڈ کپ 2023 عمران خان کے نام کردیا ہے، یہ ایک جھوٹا دعویٰ تھا جسے بہت جلد جھوٹا ثابت کر دیا گیا لیکن اس سے قبل یوٹیوب پر 10 لاکھ افراد یہ ویڈیو دیکھ چکے تھے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد نے بی بی سی کو بتایا کہ انفلوئنسرز سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پی ٹی آئی کے ناقدین کو نشانہ بناتے تھے، خاص طور پر اقلیتوں کو۔
سال 2020 میں خاتون صحافیوں کی جانب سے ایک خط پر دستخط کیے گئے تھے جس میں پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹس کی جانب سے ان کی کردار کشی بند کرنے کی بات کی گئی تھی۔تاہم ان حملوں میں کمی نہیں آئی۔
پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی نے نواز شریف کی کوریج کے دوران عمران خان پر تنقید کی تھی۔ اس کے بعد سے انہیں سوشل میڈیا پر کردار کشی اور جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ کہتی ہیں کہ ، ’ایسا اکثر بیرونِ ملک موجود یوٹیوبرز کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ہماری صنف پر فحش زبان کا استعمال کرتے ہوئے کیے جانے والے حملے ہوتے ہیں۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق ان کی ویڈیوز اور فوٹوشاپ کی گئی تصاویر کو ٹک ٹاک، ایکس اور یوٹیوب پر پھیلایا گیا جس میں ان کے الفاظ کو سیاق وسباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا۔
ان کا ماننا ہے کہ انھیں پی ٹی آئی پر تنقید کرنے کے باعث ہدف بنایا گیا ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ بطور صحافی یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب پرتنقید کریں۔
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ جبران الیاس نے بی بی سی کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور انفلوئنسرز کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ فرحان ورک پی ٹی آئی کے ساتھ منسلک نہیں تھے اور نہ ہی وہ پی ٹی آئی کے باضابطہ پیغامات کی نمائندگی کرتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج کے حامی بھی اب پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا حکمتِ عملی کو اپنا رہے ہیں۔
فرحان ورک جو اس سے قبل پی ٹی آئی ٹرول کے طور پرجانے جاتے تھے انھوں نے اپنی وفاداری بدل دی ہے۔ وہ ایکس اور یوٹیوب فیڈز پر اب فوج کی حمایت کرتے ہیں اور پی ٹی آئی مخالف بیانیے کو پھیلاتے ہیں۔
ورک یہ مانتے ہیں کہ وہ اپنی پوسٹس میں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کسی ایک سوچ کی طرف درای ضرور کرتے ہیں لیکن نہ تو وہ فیکٹ چیکر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ فوج کے ساتھ منسلک ہونے کے دعوے کی توثیق کرتے ہیں۔
اسی طرح پی ٹی آئی کے حامی انفلوئنسرز اور وہ انفلوئنسرز جو فوج کے حامی ہیں وہ بھی صحافیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ ایک خاتون صحافی نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قسم کے انفلوئنسرز کے حملوں کا نشانہ رہی ہیں۔ انفلوئنسرز کا تعلق کہیں سے بھی ہو وہ معلومات کے نظام پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب انہوں نے ایک ایسی صورتحال بنا دی ہے جس میں رپورٹرز کے لیے معلومات تک رسائی میں ابہام پایا جاتا ہے۔