Aaj Logo

شائع 06 فروری 2024 09:18am

’خاموش قاتل‘ کہیں آپ کا بھی تو پیچھا نہیں کر رہا؟

دنیا بھر میں صحتِ عامہ سے متعلق امور کے ماہرین کورونا وائرس کی وبا سے نپٹنے کے بعد اب ایک اور چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔

دنیا بھر میں ہائی بلڈ پریشر تیزی سے پنپ رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر صرف معمر افراد کو نشانہ بناتا ہے۔ اب ایسا کچھ بھی نہیں۔ آج کی دنیا میں کسی بھی عمر کا فرد ہائی بلڈ پریشر کا نشانہ بن سکتا ہے۔

یہ عارضہ اِتنی تیزی سے لاحق ہو رہا ہے کہ ماہرین نے اِسے ”خاموش قاتل“ کا نام دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بیشتر بیماریاں باضابطہ شکل رکھتی ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر باضابطہ بیماری کی شکل اختیار نہیں کرتا مگر پھر بھی اس کے ہاتھوں واقع ہونے والی اموات اچھی خاصی ہیں۔ بھارت سمیت بیشتر ترقی پذیر ممالک میں کم و بیش 10 فیصد اموات ہائی بلڈ پریشر کے ہاتھوں واقع ہوتی ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر بالعموم دھیرے دھیرے آگے بڑھتا ہے۔ انسان کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

پاکستان جیسے ممالک میں اب ”یار بی پی ہائی ہے“ روزمرہ گفتگو کا حصہ بن جانے والا جملہ ہے۔ لوگ اس حوالے سے سنجیدہ ہونے کو بھی تیار نہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر یا ”بی پی فیکٹر“ کا تعلق طرزِ زندگی سے بھی ہے اور ترجیحات سے بھی۔ معاشی معاملات میں پائی جانے والی الجھنیں انسان کو شدید ذہنی دبآ سے دوچار رکھتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بلڈ پریشر بڑھتا رہتا ہے۔

کریئر کے مختلف مراحل میں انسان کو پیش رفت کے لیے جو کچھ کرنا پڑتا ہے وہ بھی بلڈ پریشر بڑھاتا ہے۔ اگر کسی جگہ ہائی بلڈ پریشر والے لوگ زیادہ ہوں تو وہ لوگ بھی اس حوالے سے الجھن محسوس کرنے لگتے ہیں جنہیں بالعموم یہ عارضہ لاحق نہیں ہوا ہوتا۔

طرزِ زندگی میں سونے اور جاگنے کے اوقات، کھانے پینے کے معاملات میں ترجیحات اور تعلقات کی نوعیت بھی شامل ہے۔ تعلقات میں پیدا ہونے والی دراڑیں بھی ہائی بلڈ پریشر کی شکایت کو عام کرنے میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :

بلڈ پریشر کے مریضوں کیلئے بڑی طبی ایجاد

ہائی بلڈ پریشر ادویات کے بغیر بھی کم کیا جا سکتا ہے

رونالڈو، میسی کی نایاب تصویر نے شائقین کا بلڈ پریشر بڑھا دیا

اواکاڈو کو اردو میں کیا کہتے ہیں، کیا یہ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے

ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل بہت تیزی سے ہائی بلڈ پریشر کے گڑھے میں گر رہی ہے۔ کریئر کے حوالے سے پُرکشش مواقع کی تلاش انسان کو شدید ذہنی دباؤ سے دوچار رکھتی ہے۔ آج کی دنیا میں مسابقت بہت زیادہ ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے بہت کچھ سیکھنا اور بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کے لیے لازم ہے۔ ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ نے نئی نسل کو لاحق ذہنی دباؤ میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔

ماہرین کا معاشرے کے تمام طبقات کے افراد اور بالخصوص نئی نسل کو مشورہ ہے کہ متوازن طرزِ زندگی اپنایا جائے، کسی بھی رجحان کی اندھا دھند تقلید سے گریز کیا جائے اور اپنے وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی جائے۔

Read Comments