پاکستان میں انتخابات سے قبل وفاداریاں بدل لینا معمول کی بات ہے کیونکہ ذاتی مفاد کو ترجیح دینے والے امیدواروں کی اکثریت جہاں اپنا فائدہ دیکھتی ہے وہیں کا رُخ کرلیتی ہے، گزشتہ عام انتخابات میں جیت کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی اس بار کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔
چیئرمین کی تبدیلی اور انتخابی نشان چِھن جانے سمیت سیاسی مشکلات کا شکار اس جماعت کے بہت سے حامیوں نے بہت پہلے ہی صورتحال بھانپتے ہوئے راستے الگ کرلیے تھے تاہم الیکشن سے عین قبل بھی ’وفاداریاں‘ تبدیل کرنے والوں کی کمی نہیں۔
یہ بات تو سبھی باشعور حلقوں میں تواتر کے ساتھ دہرائی جاتی رہی ہے کہ پی ٹی آئی کو درپیش سیاسی مشکلات میں بڑا ہاتھ غلط وقت پر لیے گئے فیصلوں کا بھی ہے جیسے کہ کے پی اور پنجاب اسمبلیوں کا توڑنا اور خود عمران خان بھی یہ بات تسلیم کر چکے ہیں۔
اب بات کی جائے 2018 کے مقابلے میں الیکشن 2024 کی تو ایسے بہت سے چہرے ہیں جو اب پارٹی کے ساتھ نہیں کھڑے۔
سب سے پہلا ذکر تو اس بات کا کہ پُرانے رفقاء سے شدید اختلافات کے بعد خود اس جماعت کے اندر سے دو پارٹیاں نکلیں جو بہت سے دیگرحامیوں کو بھی لے اڑیں۔
جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کی استحکام پاکستان پارٹی کے مزید نمایاں چہروں میں عون چوہدری اورشعیب صدیقی شامل ہیں جو 2018 میں بڑھ چڑھ کر پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کا حصہ تھے۔
سابق وزیراعلیٰ کے پی پرویز خٹک بھی اپنی ’پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز‘ بنا کر سابق وزیراعلیٰ محمود خان، سابق وزراء اقبال وزیر، ضیاء اللہ بنگش،اشتیاق ارمڑ ابراہیم خٹک سمیت بہت سوں کو ساتھ لے اُڑے۔
پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی میں آنے اور پھر چھوڑ کر جانے والے راجہ ریاض مسلم لیگ ن کے آشیانے میں جا بیٹھے۔
کسی زمانے میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف پر تنقید کرنے میں پیش پیش چوہدری غلام سرور اس بات استحکام پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں اوردلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ان کے حلقے سے کسی کو میدان میں نہیں اُتار رہی۔
پاکستان میں خواتین کو پولنگ سے روکا جارہا ہے، فرانسیسی نیوز ایجنسی کا دعویٰ
مسلم لیگ ن نے فیصل آباد سے بھی اپنے رہنماطلال چوہدری کی جگہ پی ٹی آئی چھوڑ کر آنے نواب شیر وسیرکو ٹکٹ دیا ہے جو 2013 میں طلال چوہدری سے ہی ہارے تھے۔
سابق پی ٹی آئی رہنما نور عالم خان فضل الرحمان سے جا ملے اوراب جمعیت علمائے اسلام ف کے پلیٹ فارم سے الیکشن بھی لڑ رہے ہیں۔