انتخابات 2024 میں لاہور کے تین حلقے این اے 119، این اے 127 اور این اے 130 انتہائی اہمیت اختیار کر گئے ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کا مقابلہ دوسری جماعتوں کے ثانوی سطح کے رہنماؤں سے ہے لیکن عوامی رحجانات کے پیش نظر یہاں پر بڑے اپ سیٹ ہونے کا بھی کسی حد تک امکان ہے۔
لاہور میں ہی چار دیگر حلقوں میں تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے قدم گذشتہ برسوں میں مضبوط ہونے کے سبب انہیں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
مجموعی طورپر لاہور کی 14 میں سے 8 نشستوں پر ڈرامائی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے یہ قائدین ملک کے دیگر حصوں اور حلقوں سے بھی امیدوار ہیں لہذا یہاں سے شکست کی صورت میں بھی یہ قومی اسمبلی میں تو پہنچ جائیں گے لیکن اس کے باوجود ان کی ہار کو بڑا اپ سیٹ تصور کیا جا ئے گا۔
قومی اسمبلی کے حلقے این اے 127 پر ان دنوں ماضی کے حلیفوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان بیان بازی ہو رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری یہاں سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ امکان تو یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) خیرسگالی کے طور پر کوئی امیدوار نہ کھڑا کرتی جیسا کہ اس اپنے ایک اور سابقہ حلیف جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے معاملے میں کیا ہے۔ تاہم لاہور میں بلاول بھٹو زرداری کے مقابلے پر مضبوط ترین امیدوارعطا تارڑ ہیں۔
عطا تارڑ کو فائدہ یہ ہے کہ یہ مسلم لیگ (ن) کا مضبوط حلقہ ہے۔ لیکن وہ کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں اور انتخابی مہم میں ان کی والدہ بھی شریک ہیں۔ یہاں پ سنی تحریک بھی مسلم لیگ(ن) کی حمایت کا اعلان کر چکی ہے۔
پیپلز پارٹی کا دعوی ہے کہ این اے 127 میں پی ٹی آئی کے جو کارکن پیپلز پارٹی کی حمایت کر رہے ہیں انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری اگر عطا تارڑ سے ہار گئے تو یہ ان کے لیے بڑا دھچکا ہوگا لیکن اگر عطا تارڑ کو شسکت ہوئی تو یہ مسلم لیگ (ن) کے لیے صدمے کے سبب ہوگا کیونکہ لاہور کو مسلم لیگ (ن) اپنا گڑھ قرار دیتی ہے۔
لاہور کے حلقہ این اے 130 پر مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد کے درمیان مقابلہ ہے۔ یاسمین راشد جیل میں ہیں جبکہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
یاسمین راشد 2018 میں اس علاقے سے مسلم لیگ (ن) کے وحید عالم کے مقابلے پر ہار گئی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ جیل میں ہونے کی بنا پر انہیں ہمدردی کا ووٹ مل سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی ایک بڑے اپ سیٹ کے دعوے کر رہے ہیں۔
این اے 119 — مریم نواز، شہزاد فاروق، افتخار شاہد
یاسمین راشد تو شاید نواز شریف کو شکست نہ دے پائیں لیکن مریم نواز کو این اے 119 پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ میاں شہزاد فاروق اور پیپلز پارٹی کے افتخار شاہد کا سامنا ہے۔
شہزاد فاروق پی ٹی آئی کے رہنما میاں عباد فاروق کے بھائی ہیں۔ عباد فاروق بھی یاسمین راشد کی طرح پی ٹی آئی کے حلقوں میں ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی ہمدردی کا ووٹ بھی شہزاد فاروق کو مل سکتا ہے۔یہاں پر اگر کوئی اپ سیٹ ہوا تو یہ الیکشن 2024 کا سب سے بڑا اپ سیٹ ہوگا۔
این اے 128 — سلمان اکرم راجہ اور عون چوہدری
لاہور اگرچہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن پارٹی نے دو حلقوں این اے 117 اور این اے 128 پر امیدوار کھڑے نہیں کیے جس کی وجہ استحکام پاکستان پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہے۔
این اے 128 پر استحکام پاکستان پارٹی کے امیدوار عون چوہدری ہیں جن کے مقابلے پر پی ٹی آئی کے وکیل رہنما سلمان اکرم راجہ ہیں۔ دیگر پی ٹی آئی امیدواروں کے برعکس سلمان اکرم راجہ نہ صرف جیل سے باہر رہنے میں کامیاب رہے بلکہ وہ اپنی انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں۔
این اے 128 کو لاہور کے ان حلقوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں مسلم لیگ(ن) کی گرفت کمزور ہوچکی ہے۔ یہاں سے دو مرتبہ تحریک انصاف کے شفقت محمود منتخب ہو چکے ہیں۔
این اے 117 پر بھی مسلم لیگ(ن) نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا اور استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی۔ استحکام پاکستان پارٹی کی جانب سے عبدالعلیم خان میدان میں ہیں۔ ان کے مقابلے پر پی ٹی آئی سے گلوکار ابرارالحق ہیں۔
ان دونوں کے خلاف پیپلز پارٹی کے آصف ہاشمی اور جماعت اسلامی کے جہانگیر احمد 8 فروری کو مدمقابل ہوں گے۔
مسلم لیگ(ن) نے یہاں امیدوار کھڑا نہیں کیا لیکن اس کے کارکن فعال ہیں۔ خود مریم نواز یہاں پر ایک الیکشن آفس کھول چکی ہیں۔
این اے 129 میں حماد اظہر کے والد میاں اظہر کو پی ٹی آئی کی حمایت حاصل ہے۔ میاں اظہر کو کچھ دن قبل بغیر اجازت ریلی کی کوشش پر حراست میں لیا گیا تھا تاہم انہیں رہا کردیا گیا۔
میاں اظہر کے مقابلے پر مسلم لیگ (ن) کے حافظ نعمان ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018 کے الیکشن میں حافظ نعمان گرفتاری سے بچتے پھر رہے تھے۔
گذشتہ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) زیر عتاب اور پی ٹی ائی اس حلقے کی فاتح تھی۔ اس مرتبہ بظاہر کردار الٹ چکے ہیں۔
لاہور کے انتخابی منظر نامے پر مذہبی یا دائیں بازو کی جماعتوں کی بھی گرفت دکھائی دے رہی ہے۔ این اے 122 میں مسلم لیگ(ن) کی جانب سے پارٹی کے اہم رہنما سعد رفیق میدان میں ہیں لیکن ان کے سامنے مرکزی مسلم لیگ سےحافظ طلحہ سعید بہت فعال دکھائی دے رہے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان سے محمدامتیاز ، جماعت اسلامی سے زیبا بشارت، جے یو آئی نورانی سے محمد تصدق بھی میدان میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ لطیف کھوسہ بھی یہیں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
2018 کے الیکشن میں سعد رفیق یہ نشست عمران خان کے سامنے ہارگئے تھے لیکن عمران خان نے جب نشست چھوڑتی تو تمام تر حالات کے باوجود سعد رفیق نے یہ سیٹ جیت لی۔
این اے 126 پر بھی مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سیف الملوک کھوکھر ہیں، جماعت اسلامی کے امیرالعظیم بھی یہیں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔