ہاتھوں کی لکیروں سے محروم سکھر کے درجنوں محنت کشوں کا آٹھ فروری کو ووٹ کاسٹ کرنے کا حق خطرے میں پڑ گیا۔
کھلے آسمان تلے کم آمدن پر مشقت کرنے والے یہ سیکڑوں مزدور مہنگائی کی دہائی بھی دینے لگے۔
زندگی کے چکر بھی نرالے ہیں ایک جانب دنیا میں کرپشن پنپ رہی ہے، تو دوسری جانب یہ محنت کش تین چار سو روپے مزدوری کیلئے اپنی شناخت تک کھو بیٹھے ہیں۔
چرخے پر سوتی دھاگوں سے رسیاں بنانا آسان نہیں، اس کام میں ہاتھوں کی لکیریں تک مٹ جاتی ہیں، لیکن ان کی تقدیر کی لکیریں پھر بھی سیدھی نہیں ہوتیں۔
چرخے پر رسیاں بنانے والے مزدور سلطان کا کہنا ہے کہ ہماری 3، 4 سو روپے دیہاڑی ہے، اس دیہاڑی میں ہمارا تین وقت کا کھانا پورا نہیں ہوتا، بجلی کے بل ہم کیسے بھریں، ایک مہینہ بھر دیتے ہیں تو پھر پریشانی آجاتی ہے اور قرض لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاتھوں کی اور انگلیوں کی لکیریں ختم ہوگئی ہیں، ہم نہ ووٹ ڈال سکتے ہیں، نہ ایف آئی آر درج کرا سکتے ہیں نہ اپنے بیٹے کا شناختی بنوا سکتے ہیں۔
الیکشن سر پر ہیں امیدوار بڑے بڑے سہانے خواب دکھارہے ہیںلیکن سلطان اور رسیاں بنانے والے کئی محنت کشناصرف دوقت کی روٹی بلکہ ووٹ کے اپنے حق کے حوالے سے پریشان ہیں۔
انہیں انگلیوں کے نشانات مٹنے پر شناختی کارڈ کے حصول میں بھی پریشانی ہے۔
ان محنت کشوں کا مطالبہ ہے کہ بائیومیٹرک کی بجائے آنکھوں کا ریٹینا اسکین کرایا جائے تاکہ انہیں قومی شناختی کارڈ ملے اور یہ بھی 8 فروری کو اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔