Aaj Logo

اپ ڈیٹ 01 فروری 2024 05:55am

حماس سے لڑنے کیلئے اسرائیل جانے کے خواہشمند بھارتی قبائلی کون ہیں؟

بھارت میں آباد یہودیوں گم گشتہ قبیلے کے لوگ اسرائیل جاکر حماس سے لڑنے کے لیے بے تاب ہیں۔ کم و بیش 5 ہزار افراد پر مشتمل یہ قبیلہ شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں منی پور اور میزورم میں آباد ہے۔

جوزف ہاؤکپ اس تصور ہی سے شاداں ہے کہ وہ اسرائیل جاسکتا ہے۔ وہ اسرائیل جاکر فوج میں شمولیت اختیار کرنے اور حماس سے لڑنے کا خواہش مند ہے۔

گزشتہ برس منی پور میں لسانی فسادات پھوٹنے پر 20 سالہ جوزف ہاؤکپ اور اس کے اہل خانہ پڑوسی ریاست میزورم چلے گئے تھے۔ پانچ ماہ یہ لوگ منی پور کے ضلع کانگ کوپگی واپس آئے ہیں۔

ان کا تعلق بنی مناشے کمیونٹی سے ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ لوگ 700 قبل مسیح میں آبائی زمینیں چھوڑ کر مختلف خطوں میں آباد ہونے والے بارہ یہودی قبیلوں میں سے ایک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب یہ سب کے سب اسرائیل جاکر اپنے قبیلے کے لوگوں سے دوبارہ جُڑنے کو بے تاب ہیں۔

میزورم کے صدر مقام ایزوال میں الجزیرہ ڈاٹ کام سے گفتگو میں 37 سالہ رافیل کھیانگتے کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ اسرائیل جاکر اپنے قبیلے سے دوبارہ جُڑنے کا شدید خواہش مند ہے۔ اس کی والدہ بھی اسرائیل میں ہیں۔

کھیانگتے کی والدہ 58 سالہ سارہ پاچو 1993 میں اپنے بھائی کے ساتھ اسرائیل منتقل ہوگئی تھی۔ کھیانگتے کہتا ہے کہ ہم جس سرزمین سے 2700 سال پہلے الگ ہوئے تھے اب دوبارہ اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ لوگ جناب یوسف علیہ السلام کے سب سے بڑے بیٹے مناشے کی اولاد ہیں۔

ایزوال میں معروف مسیحی محقق پی سی بائیکزیاما نے کویت کے میڈیا آؤٹ لیٹ الجریزہ کو بتایا کہ چن، کوکی اور میزو قبیلے کے بہت سے ارکان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسرائیل کے گم شدہ قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ عہدِ قدیم میں اسرائیل 12 بادشاہتوں میں منقسم تھا۔ جنوبی ریاست کو جوڈا کی بادشاہت کہا جاتا تھا۔ اس میں جوڈا اور بنجامن قبائل کے لوگ آباد تھے۔ اسرائیل کا شمالی حصہ 10 قبائل پر مشتمل تھا۔

آسوریوں نے اسرائیلی سلطنت کے شمالی حصے کو فتح کیا تو وہاں آبادی یہودی قبائل کو نکال باہر کیا۔ یہ لوگ فرار ہوکر دنیا بھر میں بکھر گئے۔ بنی مناشے والوں کا کہنا ہے کہ وہ چین گئے اور صدیوں کے عمل میں وہاں سے شمال مشرقی بھارت میں جا بسے۔

1950 میں اسرائیل نے واپسی کے قانون کے تحت دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو اپنے ہاں بلاکر شہریت دینا شروع کیا۔ اسرائیلی حکومت نے گم شدہ قبیلوں کے لوگوں کے لیے بھی اپنے دروازے کھول دیے۔

بھارت میں آباد نام نہاد یہودیوں نے اسرائیل جاکر آباد ہونے کی کوششیں 1951 میں شروع کیں جب ایک قبائلی لیڈر میلا چالا نے بتایا کہ اس نے خواب دیکھا ہے کہ قبیلے کے سب لوگ اسرائیل میں آباد ہو رہے ہیں۔

شمال مشرقی بھارت، بالخصوص منی پور اور میزورم، میں بہت سوں نے یہودیت قبول کر رکھی ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس کی ہیبریو یونیورسٹی کی پروفیسر شالوا وائل کا کہنا ہے کہ انہوں نے 1980 میں بھارت کے سفر کے دوران منی پور میں پہلی بار ایک اسرائیلی ربی ایلیاہو ایویچیل کو بنی مانشے قبیلے کے لوگوں سے ملوایا تھا۔

شمال مشرقی بھارت کے جو لوگ یہودیوں کے گشم شدہ قبائل سے تعلق کے دعویدار ہیں ان کے پاس اپنے دعوے کا کوئی باضابطہ، ٹھوس اور قابلِ قبول دستاویزی ثبوت نہیں۔

بنی مناشے کے قبیلے سے تعلق کا دعویٰ کرنے والے بھارتی باشندوں نے 1980 کی دہائی میں اسرائیل جانا شروع کیا۔ 1991 میں پروفیسر شالوا وائل نے جب تل ابیب میں دس گم گشتہ قبائل کے حوالے ایک نمائش کا اہتمام کیا تو منی پور اور میزورم سے 12 افراد پہنچے۔ پھر ان کی تعداد بڑھتی گئی۔

2005 میں انہیں باضابطہ یہودی تسلیم کرلیا گیا۔ تین عشروں کے دوران ساڑھے تین ہزار افراد بھارت سے اسرائیل منتقل ہوکر وہاں باضابطہ شہری کی حیثیت سے آباد ہوچکے ہیں۔

پانچ سال میں بھارت سے کم و بیش 1421 افراد اسرائیل منتقل ہوئے ہیں اور انہیں باضابطہ یہودی تسلیم کرکے شہریت دینے کے لیے بہت سی شخصیات نے آواز اٹھائی ہے۔ بھارت سمیت کسی بھی ملک سے منتقل ہونے والے یہودیوں کو اسرائیلی شہریت دینے کے مخالفین بھی کم نہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اسرائیل کا رقبہ کم ہے۔ اگر آبادی بڑھتی رہی تو قدرتی وسائل پر دباؤ بڑھتا جائے گا اور ملک کا بنیادی ڈھانچا کمزور پڑتا جائے گا۔

اسرائیلی حکومت نے شمال مشرقی بھارت میں نسلی منافرت کا نشانہ بننے والے نام نہاد یہودیوں کو مالی امداد بھی فراہم کی ہے۔ نسلی منافرت نے یہودی ہونے کے دعویداروں کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔

بہت سے خاندان اس وقت منتقسم ہیں۔ جن خاندانوں کے کچھ لوگ اسرائیل میں آباد ہوچکے ہیں وہ اب ادھورے پن کے احساس سے دوچار ہیں۔ جو لوگ بھارت میں رہ گئے ہیں وہ جلد از جلد اسرائیل پہنچ کر اپنے رشتہ داروں سے جا ملنے کو بے تاب ہیں۔

Read Comments