ترجمان امریکی خارجہ محکمہ میتھیو ملر کی جانب سے خصوصی عدالت سے سائفرکیس میں عمران خان کی سزا پر تبصرے سے انکار پر ایک صحافی نے وینزویلاکے تناظر میں سوال اٹھا دیا۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں 30 جنوری کو معمول کی پریس بریفنگ کے دوران میتھیو ملر نے صحافیوں کے سوالات کے باوجود سائفرکیس عمران خان کو 10 سال قیدِ بامشقت کی سزا تبصرے سے انکار کرتے ہوئے قانونی معاملہ قرار دیا تھا۔
میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ، ’ یہ پاکستانی عدالتوں میں ایک قانونی معاملہ ہے۔ ہم اس مقدمے کو فالو کرتے آرہے ہیں لیکن فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔’
ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان محکمہ خارجہ کا کہنا تھا سابق وزیراعظم کیخلاف کیس چلنا قانونی معاملہ ہے جو ہم پاکستانی عدالتوں پر چھوڑتے ہیں۔ لیکن جو ہْم دیکھنا چاہیں گے وہ ایک ایسا جمہوری عمل ہے جس میں تمام جماعتوں کو شرکت کی اجازت اورجمہوری اصولوں کا احترام ہو۔ہم پاکستان کے اندرونی معاملات میں کوئی پوزیشن نہیں لیتے۔ ہم اس بارے میں کوئی موقف اختیار نہیں کرتے کہ کون سے امیدوار اقتدار کے لیے دوڑ میں ہیں۔ ہم غیرجانبدارانہ، شفاف انتخابی عمل چاہتے ہیں۔ لیکن جو قانونی معاملات ہیں ان کا فیصلہ پاکستان کی عدالتوں کوکرنا ہے۔’
اس موقع پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ، ”پاکستان کی عدالت فیصلہ کرے تو آپ کہتے ہیں قانونی معاملہ ہے، اگر وینیزویلا میں عدالت فیصلہ کرے تو آپ کہتے ہیں کہ سیاسی معاملہ ہے، اور وہاں کینگرو کورٹس ہیں۔ پاکستان کے اندر مقدمہ کی کارروائی کو خفیہ رکھا گیا ہے، عمران خان کے وکیل کو عدالت سے باہر بٹھایا گیا اور استغاثہ کی ٹیم سے ایک وکیل کو اٹھا کر عمران خان کا وکیل صفائی بنا دیا گیا۔ سو ایسی پراسیکیوشن بھی کینگرو کورٹ سے کم نہیں ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہے کہ وینیزویلا میں معاملہ سیاسی ہے اور پاکستان میں قانونی ہے؟“
اس سوال کے جواب میں میتھیو ملر نے انہیں دو مختلف معاملات سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دو مختلف صورتیں ہیں، ہم پاکستان کے لیگل پراسس کے بارے میں ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ وینیزویلا کی طرف دیکھیں تو وہاں مدورو حکومت کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے جہاں جمہوریت کے خلاف کریک ڈاون ہوتا ہے۔
ملر نے مزید کہا کہ ، ’اور اس کیس میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ امیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے وعدوں پر عمل میں ناکام رہے۔ یہ ایک وعدہ ہے جو انہوں نے کیا تھا کہ ملک اس سے پیچھے ہٹ گیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم اس معاملے میں تخمینہ لگانے میں کامیاب ہوئے۔‘