بحر ہند میں سیکڑوں چھوٹے جزائر پر مشتمل مسلم ریاست مالدیپ کو ”خطے کے چودھری“ سے دشمنی مول لینا مہنگا پڑگیا۔
گزشتہ ماہ بھارت وزیر اعظم نریندر مودی کی لکشا دویپ کی سیر پر مالدیپ کی چند حکومتی شخصیات کے ہتک آمیز تبصروں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی در آئی تھی۔
معاملہ اس قدر بگڑا کہ بھارت نے اپنے سیاحوں کو مالدیپ جانے سے روک دیا۔ اس پر مالدیپ کے صدر محمد معزوں نے پسپا ہونے کا ہتھیار ڈالنے کے بجائے بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی ہمت دکھائی اور چین سے استدعا کی کہ وہ اپنے سیاح مالدیپ بھیجے۔
مودی سرکار کے لیے یہ سب کچھ ناقابلِ برداشت تھا۔ اس نے مالدیپ کو دھمکانے کی بالواسطہ کوششیں کیں۔ مالدیپ کی معیشت کے لیے بھی خطرات پیدا ہوئے۔ اس پر بھی مالدیپ نے جھکنے کے بجائے متبادل راستے تلاش کرنا جاری رکھا ہے۔
بدھ کو مالدیپ کے پرسیکیوٹر جنرل حسین شمیم کو نامعلوم افراد نے خنجر کے وار کرکے شدید زخمی کردیا۔ حسین شمیم کو گزشتہ نومبر میں مالدیوین ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت نے پراسیکیوٹر جنرل مقرر کیا تھا۔ اب یہ جماعت اپوزیشن میں ہے۔
چند ہفتوں کے دوران مالدیپ میں پارلیمنٹ کے متعدد ارکان پر مسلح گروہوں نے سڑکوں پر حملے کیے ہیں۔
مالدیپ میں سیاسی استحکام بڑھ رہا ہے۔ اس حوالے سے شک کی سُوئی بھارت کی طرف بھی اشارا کر رہی ہے۔ بھارت کے ٹکرانے کی پاداش میں صدر محمد معزو کو بھی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے کیونکہ اپوزیشن نے ان کے مواخذے کی تحریک لانے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ چین نواز صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک بہت جلد پارلیمنٹ میں جمع کرائے جانے کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیں :
مالدیپ نے ہندوستانی فوج کو ملک سے نکلنے کا حکم دے دیا
مالدیپ کا بھارت کے آگے جھکنے سے انکار، چین سے سیاح بھیجنے کو کہہ دیا
محمد معزو نے گزشتہ ستمبر کے صدارتی انتخاب میں بھارت نواز ابراہیم محمد صالح کو شکست دی تھی۔ صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد محمد معزو نے 17 نومبر کو مودی سرکار سے کہا تھا کہ وہ مالدیپ کی سرزمین پر تعینات 88 بھارتی سپاہیوں کو 15 مارچ 2024 تک واپس بلالے۔ بھارتی فوج کے یہ اہلکار مالدیپ کو دیے جانے والے ڈورنیر طیارے اور دو ہیلی کاپٹرز کو چلانے کے لیے تعینات ہیں۔
صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد چین کے دورے میں صدر محمد معزو نے یہ بھی کہا تھا کہ مالدیپ چھوٹا ملک ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی اسے دبانے، دبوچنے کی کوشش کرے۔