کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ 2 سال کے لیے بین الاقوامی طلبہ کو داخلہ دینے کے خواہشمند نئے کالجز کی منظوری فروری 2026 تک روک دے گا۔
اس صوبے میں یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا، سائمن فریزر یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف وکٹوریہ جیسے اداروں میں بھارتی طلبہ کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق برٹش کولمبیا نجی تربیتی اداروں میں زبان کیلئے کم از کم نمبرز متعارف کرانے اور لیبر مارکیٹ کی ضروریات اور ڈگری کے لیے اعلیٰ معیار ات مقرر کرنے کا بھی منصوبہ بنا رہا ہے۔
حکام کے مطابق اس فیصلے کا مقصد بین الاقوامی طلبہ کو ’بے ایمان اداروں‘ کی جانب سے استحصال سے بچانا اور صوبے میں ثانوی تعلیم کے بعد کا جموعی معیار بہتر بنانا ہے۔
اس اقدام کو ٹروڈو حکومت کی جانب سے بین الاقوامی طالب علموں کی امیگریشن میں اضافہ روکنے کے منصوبے سے بھی منسوب کیا گیا ہے، جسے جزوی طور پر ملک میں رہائش کے بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔
یہ پیش رفت کینیڈین حکومت کی جانب سے نئے انٹرنیشنل طلبہ کے اجازت ناموں پر فوری طور پر 2 سال کی پابندی کے اعلان کے ایک ہفتے بعد سامنے آئی ہے، جس کا مقصد رواں سال داخلوں کو 35 فیصد کم کرکے تقریباً 3 لاکھ 60 ہزار کرنا ہے۔ گریجویشن کے بعد کچھ طلباء کو ورک پرمٹ دینا بھی بند کر دیا جائے گا۔
تازہ ترین اندازوں کے مطابق کینیڈا میں بین الاقوامی طلبہ کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جس میں سب سے زیادہ 37 فیصد حصہ بھارتیوں کا ہے۔ تاہم کینیڈا کے امیگریشن وزیر مارک ملر نے حال ہی میں اشارہ دیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تنازع کی وجہ سے ہبھارتی طلبا کو جاری کردہ اسٹڈی پرمٹ میں کمی آئی ہے۔
2023 میں ، کینیڈا نے معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے 5 لاکھ مستقل رہائشیوں اور 900،0009 لاکھ غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دینے کا ہدف رکھا۔ تاہم، انٹیک نے ان حدود کو عبور کیا اور ملک کو 345،000 ہاؤسنگ یونٹس کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے ٹروڈو حکومت کے لیے اہم چیلنجز پیدا ہوئے۔