دنیا بھر کے معاشروں میں جیتے جی آخری رسوم منعقد کرانے کا رجحان ہر دور میں رہا ہے۔ یہ رجحان ان لوگوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جو کسی جان لیوا مرض میں مبتلا ہوں اور ڈاکٹرز نے صاف صاف بتا بھی دیا ہو کہ اب اُن کے پاس اِتنے ہفتے یا اِتنے مہینے رہ گئے ہیں۔
نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں موت کے بارے میں کچھ کہنے اور سُننے سے لوگ بالعموم کتراتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ موت کے بارے میں سوچنا، اُس کے لیے تیار رہنا اور اُس کے بارے میں بات کرنا حقیقت پسندی کی علامت اور دلیل ہے۔
نفسی امور کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ موت اٹل حقیقت ہے اس لیے اُس کے بارے میں سوچنے اور بولنے سے کترانا محض بے عقلی ہے۔ کوئی قبول کرے یا نہ کرے، موت ہے تو اٹل حقیقت ہی۔ نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ موت کے بارے میں سوچنے اور اُسے پوری خوش دلی سے قبول کرنے کی کیفیت انسان کے دل و دماغ کو مطمئن رکھتی ہے۔
مغربی معاشروں میں اپنی آخری رسوم منعقد کرانے کا رجحان نسبتاً نیا ہے۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں ایک روایت یہ بھی رہی ہے کہ لوگ اپنی آخری رسوم کے لیے اہلِ خانہ یا رشتہ داروں کو تمام اخراجات کے لیے درکار رقم دے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بھی بہت سے لوگ اپنی تدفین، تیجے اور چالیسویں کے لیے رقم مختص کرکے بیٹوں، بیٹیوں یا ایسے رشتہ داروں کے حوالے کردیتے ہیں جن پر اُنہیں بھروسا ہو۔ کچھ لوگ ایسا اس لیے بھی کرتے ہیں کہ اُنہیں یقین ہوتا ہے کہ اُن کی آنکھ بند ہوتے ہی لوگ بھول بھال جائیں گے اور کوئی اُن کے لیے تیجے، چالیسویں کا اہتمام نہیں کرے گا۔
چند برسوں کے دوران ترقی یافتہ معاشروں میں جیتے جی آخری رسوم (پری فیونرل یا لیونگ فیونرل) کے انعقاد کے رجحان نے زور پکڑا ہے۔ 2019 میں جنوبی کوریا میں کم و بیش 25 ہزار افراد نے مختلف سطحوں پر اپنی آخری رسوم منعقد کیں۔
برطانوی اخبار دی گارجین کی رپورٹر ازابیل نے ایسے پانچ افراد سے گفتگو کی جنہوں نے جان لیوا مرض لاحق ہونے پر یعنی موت کا یقینی ہو جانے پر اپنی آخری رسوم کا اہتمام کیا۔ ان سب نے بتایا کہ اپنی آخری رسوم کی تقریبات کا انعقاد اس لیے ایک خوش گوار تجربہ رہا کہ لوگوں کو اُن کے بارے میں جو بھی اچھی اچھی باتیں کرنا تھیں وہ انہوں نے ان کے منہ پر کہہ دیں۔ کسی کو اگر کوئی شِکوہ تھا تو وہ بھی اس نے بیان کیا اور معاملات کی پیچیدگی کو رفع کیا۔
1990 کی دہائی میں جاپان میں بھی جیتے جی آخری رسوم کے انعقاد کے رجحان نے زور پکڑا تھا۔ جارجیا مارٹن نے موت کے بارے میں سوچنے اور بولنے کے لیے ”اے بیوٹی فُل گڈ بائے“ کے نام سے تنظیم بنائی ہے۔ یہ تنظیم 2016 سے ایسے لوگوں کو موت کا سامنا کرنے کے لیے اچھی طرح تیار کر رہی ہے جو کسی جان لیوا مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں :
موت سے چند گھنٹے پہلے ظاہر ہونے والی سائنسی نشانیاں
حکایت : دشمن کی موت پر خوشی نہ مناؤ
36 سالہ کلیئر کا کہنا ہے کہ لوگ آپ کے بارے مٰں جو بھی اچھا یا بُرا آپ کے جانے کے بعد کہیں گے وہ اگر آپ کے جیتے جی، آپ کے منہ پر کہہ دیا جائے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ کلیئر کا کہنا ہے کہ جب سے اُس نے اپنی آخری رسوم کا انعقاد کیا ہے تب سے لوگوں نے اسے ”دی ڈیتھ گائے“ کہنا شروع کردیا ہے۔
موت کے بارے میں کھل کر بات کرنے کے لیے برطانیہ میں ایک اور گروپ بھی کام کر رہا ہے جو ”ڈیتھ اوور ڈنر“
87 سالہ Mille کا کہنا ہے کہ میں نے جب اپنی آخری رسوم منعقد کیں تب مجھ میں سب سے وابستگی کا احساس مزید مضبوط اور گہرا ہوا ہے۔