آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت نے سائفر کیس نہ سننے کی پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی اڈیالہ جیل میں سماعت کی۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سائفر کیس کے اہم گواہ اعظم خان پر اسٹیٹ ڈیفنس کونسل نے جرح مکمل کرلی۔
آج کیس کے اہم گواہ اعظم خان پر اسٹیٹ ڈیفنس کونسل نے جرح مکمل کی، اس دوران شاہ محمود قریشی نے کونسلز پر اعتراض کیا۔
اس پر جج ابوالحسنات نے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین سے کہا کہ آپ خاموشی سے بیٹھ جائیں ورنہ کمرہ عدالت سے باہر نکل دیا جائے گا۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کے جج پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اپنی درخواست میں کہا کہ عدالت سائفر کیس کو نہ سنے جبکہ عدالت نے دلائل سننے کے بعد سائفر کیس نہ سننے کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ موجودہ حالات میں عدالت کے ساتھ چلنا مشکل ہو گیا ہے، ہم عدالت سے کہتے رہے کہ احتیاط سے چلیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے 2 مرتبہ ٹرائل کو کالعدم قرار دیا، ہم اس کے باوجود تیسری مرتبہ بھی عدالت کے سامنے آگئے، سیکرٹ گرفتاری اور سیکرٹ ریمانڈ بھی دیا گیا ہم نے تب بھی اعتراض نہیں کیا، ہمیں معلوم نہیں کہ عدالت جلدی کیوں کر رہی ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے مزید کہا کہ عدالت نے جو ڈیفنس کونسل مقرر کیے، وہ اتنے قابل ہیں کہ 14 گھنٹے میں کیس سمجھ لیا، کیس کو سمجھ کر 9 گواہوں پر جرح بھی کر لی یہ ناممکن ہے، اسٹیٹ ڈیفنس کونسلز نے ہمارے مؤکل کے کیس پر ہاتھ سیدھا کیا، سپریم کورٹ نے جلد ٹرائل کا کہا یہ نہیں کہا کہ کیس روزانہ کی بنیاد پر چلے گا۔
جج ابوالحسنات نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کوئی انکاری نہیں، سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کیس میں رکاوٹیں آتی ہیں تو ضمانت منسوخ کی جاسکتی ہے، جب ملزمان جیل میں ہوں تو سماعت روانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جج صاحب اگر ہمیں ضمانت مل بھی گئی تو ہم نے اندر ہی رہنا ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ کچھ تو غلط ہوا تھا جو اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ سماعتوں کو کالعدم قرار دیا، یہ عدالت اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے آڈر پر توجہ نہیں دے رہی۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ قانون ملزم کو اپنی مرضی کا وکیل رکھنے کا حق دیتا ہے، گزشتہ سماعت پر سکندر ذولقرنین دانت کے آپریشن کی وجہ سے عدالت نہیں آسکے، اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز کی تعیناتی بھی غلط کی گئی، سیریس کیس ہے اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز نے ہم سے مشاورت تک نہیں کی، 10 گواہوں سے چار چار سوال پوچھ کر جرح مکمل کر لی گئی، اہم گواہ اعظم خان پر جرح کے دوران بھی ہمارے وکلا کو جیل سے باہر روکا گیا، وکیل صفائی کے پاس جرح ہی ایک ہتھیار ہوتا ہے لیکن عدالت نے اس سے بھی محروم کر دیا۔
پراسیکوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جلد ٹرائل کا کہا، سپریم کورٹ نے رکاوٹیں آنے پر ضمانت خارج کرنے کا بھی کہا تھا، عثمان گل اورعلی بخاری گزشتہ سماعت پرموجود تھے مگر انھوں نے گواہوں پر جرح نہیں کی، عثمان گل نے کہا تھا کہ انھیں جرح کا اختیار نہیں دیا گیا، ان کے وکالت نامہ میں کہاں لکھا ہے کہ یہ جرح نہیں کرسکتے، یہ تفویض کردہ عدالت ہے یہ کیس سننے سے انکار نہیں کر سکتی، عدالت ملزمان کی کیس نہ سننے کی درخواست خارج کرے اور گواہان پر جرح شروع کی جائے۔
اس سے قبل راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران آج پھر بدمزگی دیکھی گئی، گزشتہ سماعت پر بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی جج سے بدتمیزی کا واقعہ پیش آیا تھا۔
آج خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پھر سماعت کی تو پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی اور عمر بلال عدالت پہنچے جبکہ سرکاری وکیل اور شاہ محمود قریشی کی اہلیہ اور بیٹی بھی اڈیالہ جیل پہنچیں، اس موقع پر عوام اور گواہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت شروع ہوئی تو سابق سیکریٹری پرنسپل وزیراعظم اعظم خان سے جرح کے دوران ماحول ناخوشگوار ہوگیا۔
سائفر کیس: ’تمہاری کیا اوقات ہے؟‘ پراسیکیوٹر اور شاہ محمود قریشی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ
شاہ محمود قریشی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان غصہ میں آگئے اور شور شرابہ شروع کردیا۔
معاملے کی سنگینی پر جج کو کارروائی کچھ دیر کیلئے موخر کرنا پڑی۔
خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر 9 گواہان کے بیانات پر جرح مکمل کی گئی تھی، گواہان پر جرح بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے اسٹیٹ ڈیفنس کونسل نے کی۔
وکلاء صفائی کی عدم دستیابی پر عدالت نے ملزمان کو اسٹیٹ ڈیفنس کونسل فراہم کیے تھے، جس پر دونوں ملزمان نے اعتراض کیا تھا۔