امریکا اور عراق نے داعش کو ختم کرنے کے لیے قائم کیے گئے اتحادی مشن کی بساط لپیٹنے کے لیے مذاکرات شروع کردیے ہیں۔
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب عراق اور شام میں امریکی فوجیوں اور ان کے ٹھکانوں پر راکٹ اور ڈرون میزائل حملے ہو رہے ہیں۔ امریکا نے عراق میں اپنی موجودگی 2003 سے برقرار رکھی ہے۔
داعش سے لڑنے کے لیے بنائے گئے اتحادی مشن کو ختم کرنے کے لیے امریکا اور عراق کے درمیان ہفتے کو بغداد میں رسمی بات چیت کا پہلا دور ہوا۔
عراقی وزیر اعظم شیاع السودانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ داعش سے لڑنے کے لیے بنائے گئے مشن کے خاتمے کے لیے یہ مذاکرات بروقت ہیں۔ امریکا نے بتایا ہے کہ اس سلسلے میں گزشتہ برس کے اواخر میں ابتدائی مشاورت ہوئی تھی۔ یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ اس بات چیت کا یمن کی ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے بڑھتے ہوئے حملوں سے کوئی تعلق نہیں۔
امریکا کے فوجی 2011 میں عراق سے چلے گئے تھے تاہم داعش کا سامنا کرنے میں عراقی حکومت کی مدد کرنے کی خاطر 2014 میں امریکی فوجیوں کی واپسی ہوئی تھی۔
داعش کے زیرِ تصرف علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے بعد عراقی حکومت بارہا کہہ چکی ہے کہ اب امریکی فوجیوں کی ضرورت نہیں اس لیے انہیں واپس بلایا جائے اور مشن ختم کیا جائے۔
جنوری 2020 میں امریکی فوج کے فضائی حملے میں ایرانی پاس دارانِ انقلاب کا جنرل قاسم سلیمان اور پھر بغداد ایئر پورٹ کے باہر عراقی ملیشیا کا لیدر ابو مہدی المہندس مارا گیا تھا۔ اس کے بعد امریکا پر اپنے فوجی نکالنے کے لیے دباؤ بڑھ گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں :
باجوڑ : سی ٹی ڈی اور پولیس کا مشترکہ آپریشن، کالعدم داعش کا کمانڈر ہلاک
اس وقت امریکا کے ڈھائی ہزار فوجی عراق کے چند علاقوں میں تعینات ہیں۔ ان پر اور ان کے ٹھکانوں پر یمن کی حوثی ملیشیا کے بڑھتے ہوئے حملوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو معاملات پر نظرِ ثانی پر مجبور کردیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایک کمیٹی طے کرے گی کہ امریکا کے فوجی کس طرح نکالے جائیں۔