** پیدائش کے بعد اسپتال میں جدا ہونے والی 2 جڑواں بہنیں ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے سالوں بعد دوبارہ مل گئیں۔**
یہ انکشاف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مشرقی یورپ کے جارجیا میں ایک لاکھ بچے چوری کر کے بے اولاد والدین کو فروخت کر دیے جاتے ہیں۔
2005 میں پیدا ہونے والی دو جڑواں بہنوں کو بھی پیدائش کے بعد ماں کے کومے میں جانے کے بعد والد نے دو الگ الگ خاندانوں کو فروخت کردیا گیا تھا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایمی اور اینو نے ایک ٹی وی ٹیلنٹ شو اور ایک ٹک ٹاک ویڈیو کی بدولت ایک دوسرے کو ڈھونڈا ہے۔
انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ میری زندگی میں کچھ یا کسی کی کمی ہے۔ میں سیاہ لباس میں ملبوس ایک چھوٹی سی لڑکی کے بارے میں خواب دیکھتی تھی جو میرے ارد گرد گھومتی تھی اور مجھ سے میرے دن کے بارے میں پوچھتی تھی‘۔
ان کا دوبارہ ملنا بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم ’جیوگیاز لوسٹ چلڈرن‘ کا حصہ تھا۔
فلم بندی کے دوران، براڈکاسٹر نے جارجیائی صحافی تمونا موسیریڈز کے ساتھ مل کر دریافت کیا کہ ایسے بے شمار والدین ہیں جنہیں بتایا گیا تھا کہ ان کے بچے پیدائش کے وقت ہی مر جاتے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان کے بچے امریکہ، کینیڈا، قبرص، روس اور یوکرین تک کے جوڑوں کو فروخت کیے گئے تھے۔
’گمشدہ بچوں‘ کے معاملے کی جانچ کرنے کی سرکاری کوششیں کی گئی ہیں لیکن کسی کو بھی جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ جارجیا کی حکومت نے بچوں کی اسمگلنگ کی تحقیقات کا آغاز کیا اور 40 سے زائد افراد سے بات کی لیکن نشریاتی ادارے کو بتایا کہ یہ کیسز ’بہت پرانے ہیں اور تاریخی اعداد و شمار ضائع ہو چکے ہیں‘۔
صحافی تمونا موسیریز نے وید زیب کے نام سے ایک فیس بک گروپ بھی قائم کیا ہے۔ یہ فیس بک پیج جارجیائی باشندوں کو ان کے گمشدہ والدین اور بچوں سے دوبارہ ملنے میں مدد کرنے کے لئے وقف ہے۔
یہ وید زیب ہی تھا جس نے ایمی اور اینو کو جرمنی میں دوبارہ ملنے میں مدد کی۔
نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ صحافی نے جارجیا میں 1950 کی دہائی کے اوائل سے لے کر 2005 تک پھیلنے والی ایک بلیک مارکیٹ کا بھی پتہ لگایا۔
حکومت نے یہ جاننے کے لئے چار سے زیادہ کوششیں کیں کہ علیحدگی کی وجہ کیا ہے اور 2003 میں بچوں کی بین الاقوامی اسمگلنگ کی تحقیقات کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں متعدد گرفتاریاں ہوئیں لیکن عوام کے پاس دستیاب معلومات کم ہیں۔ 2015 میں زچگی اسپتال کے جنرل ڈائریکٹر، الیگزینڈر باراوکووی کو گرفتار کیا گیا تھا، لیکن ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو صاف کر دیا گیا تھا اور انہیں کام پر واپس جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔