شکا گویونیورسٹی کے محققین کے مطابق اشرف غنی حکومت میں آثارقدیمہ کی لوٹ مارکاشروع کیا گیاسلسلہ اب بھی جاری ہےافغانستان کےدرجنوں آثارقدیمہ کےمقامات کومسلسل لوٹنے کے لیے ’بلڈوز‘کیاگیا
محققین کے مطابق سیٹلائٹ کی مدد سے حاصل تصاویرمیں واضح طورپر دیکھا جاسکتا ہےشمالی افغانستان کےعلاقےبلخ میں سے کچھ بستیاں 1000 سال قبل مسیح کے زمانے کی ہیں جن کے بارے میں کہاجارہاہے کہ وہ بھی بلڈوزہونے والی عمارتوں میں شامل ہیں۔
شکاگو یونیورسٹی کے محققین نےسیٹلائٹ کی تصویروں اوردیگرآلات کی مدد سے پورے افغانستان میں 29,000 سے زیادہ آثارقدیمہ کی جگہوں کی نشاندہی کی ہے۔مرکز کے ڈائریکٹروضاحت کرتے ہیں کہ ان تازہ بلڈوزکیے گئےعلاقے میں لٹیروں کے ہاتھوں کھودےگئے گڑھے نظرآتےہیں۔
ان کی ٹیم کا کہناہے کہ سنہ 2018 اور سنہ 2021 کے درمیان 162 قدیم بستیوں اوراہم ثقافتی اہمیت کے مقامات کو ’ایک ہفتے میں ایک حیران کن شرح سے تباہ اورنقصان‘ پہنچایاگیااوراس کے بعدطالبان کے دورمیں 37 مقامات پر تباہی کایہ افسوس ناک عمل جاری رہا۔
پروفیسرسٹائن کاکہنا ہے کہ ’یہ بات اہم ہے کہ یہ سلسلہ سابق صدراشرف غنی کے دورِحکومت میں شروع ہوااورطالبان کے دورمیں بھی جاری رہا۔
سنہ 2001 میں طالبان نے دنیاکواس وقت حیران کردیاجب انھوں نے اپنے پہلے دورحکومت میں 1500 سال پرانے بامیان میں موجودہ دنیا کے سب سے بڑے بدھا کے بتوں کوتباہ کردیا تھا۔
قائم مقائم نائب وزیراطلاعات عتیق اللہ عزیزی آثارقدیمہ کو لوٹے جانے کے دعوے کورد کرتے ہیں اور کہتے ہیں 800 لوگوں پرمشتمل ایک یونٹ کوتاریخی مقامات کی دیکھ بھال کیلیےتعینات کیاہے۔
طالبان کی وزارت دفاع کآکہنا ہے کہ گذشتہ ستمبر میں تین ایسے افراد کوگرفتار کیا گیا تھا،جن پر مجسمے،ممیوں، ایک سنہری تاج، ایک کتاب اورتلواروں سمیت تقریباً 27 ملین ڈالرمالیت کے نوادرات کو اسمگل کرنے کی کوشش کرنے کاالزام تھا۔ان اشیا کوقومی عجائب گھرکے حوالے کردیا گیاہے۔
پروفیسرسٹائن کاخیال ہے کہ لوٹے گئے نوادرات افغانستان سے ایران، پاکستان اوردیگر ممالک کے راستے سمگل کیے جاتے ہیں اورپھریورپ، شمالی امریکہ اور مشرق بعید میں پہنچ جاتے ہیں۔
پروفیسر سٹائن کہتے ہیں ’افغانستان کا ورثہ درحقیقت دنیا کا ورثہ ہے جو ہم سب کا ہے۔