سندھ اور بلوچستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کردینا عام ہے لیکن ’پیٹ کی رسم‘ جیسی ایک فرسودہ رسم نے اس کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔
سندھ اور بلوچستان میں پیٹ کے نام سے ایک ایسی رسم کی جاتی ہے جس میں لڑکیوں کے مستقبل کا فیصلہ ان کی پیدائش سے کئی سال قبل ہی کردیا جاتا ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اگر شادی کے بعد بچی پیدا ہوئی تو نانا کی ملکیت ہوگی یعنی ایک شخص نے لڑکی دی اور جواب میں دوسرا شخص لڑکی دے گا۔ لڑکے کے مستقبل یعنی شادی کا فیصلہ اس کا نانا کرے گا۔
محقق غلام نبی کا کہنا تھا کہ’عورت کو جب محکوم بنایا گیا تو اسے بیچنا شروع کردیا گیا۔ یہ آج بھی ہورہا ہے، کئی لوگ ایسے ہیں کو معاوضہ ادا نہیں کرسکتے ہیں، تو ان سے یہ پیٹ مانگا کرتے ہیں۔ پیٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے، اس کی جب بیٹی پیدا ہوگی تو وہ اس کے رشتہ داروں کی ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ لڑکی کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ بلوچستان، سرحد میں اور سندھ کے کئی علاقوں میں آج بھی یہ رسم کی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق عبدالغنی نامی شخص نے اپنی آٹھ بیٹیاں بیاہ کرپیٹ میں 12 لڑکیوں کی ملکیت حاصل کی، جو بڑھتے بڑھتے 23 بچیوں تک جا پہنچی۔
عبدالغنی مر چکا ہے لیکن 5 پیٹ اب بھی واجب الادا ہیں، جو اس کے بیٹے وصول کریں گے۔
لڑکی کے بدلے میں لڑکی کے گھر والے رقم، زمین یا پھر کسی لڑکی رشتہ لیتے ہیں۔ یہ ان دیکھا معاوضہ بروقت ادائیگی کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی لڑکی کو رسم کے نام پر بیچا یا خریدا جاتا ہے۔
رسم کی بدترین بات یہ ہے کہ لڑکی کی شادی 12 سے 14 سال کی عمر میں کردی جاتی ہے۔ بچی کا رشتہ دینے سے انکار کرنے کی صورت میں بات جرگے یا قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔