سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ نہیں ہوں، اپنی جماعت کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتا، الیکشن کو بامقصد بنالیا جاتا تو بہتر تھا، ایسے الیکشن کے بعد تو انتشار ہی ہوگا، میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل کرے گی، اگر کسی نے بائیکاٹ کردیا تو الیکشن مزید متنازع ہوجائیں گے، ایک صاحب کہتے ہیں تین سو یونٹ مفت فراہم کروں گا، یہ کیسے ممکن ہے،سولر پربھی پیسے لگتے ہیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ نہیں ہوں، انتخابات میں حصہ نہیں لے رہا، انتخابات نہ لڑنے کے فیصلے پر مضبوط ہوں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپنی جماعت کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتا، مجھے الیکشن بے مقصد نظر آتے ہیں، سیاسی لیڈر شپ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکی، انتخابات میں 2 ہفتے ہیں کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہیں، کیا ہماری قسمت میں بدترین جمہوریت ہی لکھی ہے؟۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ مسائل بہت بڑھ چکے کوئی ایک حکومت حل نہیں کرسکتی، عسکری و سیاسی قیادت کو مل کر بیٹھنا ہوگا، سیاسی لیڈر شپ کو کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا، ایک صاحب کہتے ہیں 300 یونٹ بجلی مفت فراہم کروں گا، پوچھتا ہوں کہ کیسے مفت کریں گے، کیسے ممکن ہے؟۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سولر سسٹم میں بھی پیسے لگتے ہیں، کوئی چیز بھی مفت دینا قابل عمل نہیں، 16 ماہ کی حکومت میں جو کام نہیں ہوا وہ اب کیا ہوگا؟ پی ڈی ایم حکومت کو ریفارمز کا عمل شروع کرنا تھا، حکومت بننے کے بعد وزارتوں کا جھگڑا شروع ہوجاتا ہے۔
9 مئی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 9 مئی ملک کی تاریخ کا بڑا سانحہ تھا، حکومت کو معاملہ عدالتوں میں لے جانا چاہیئے تھا، حکومت کا کام ہوتا ہے پراسیکیوٹ کرنا، دن رات عدالتیں بیٹھتیں اور کارروائی ہونی چاہیئے تھی، فوری طورپر کارروائی ہونا چاہیئے تھی۔
شاہد خاقان عباسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کے منشور ایک ہی جیسے ہیں، ملکی مسائل حل کرنے والی سوچ نظر نہیں آتی، کسی کے پاس بھی کچھ کہنے کے لیے نہیں، پیپلزپارٹی نے سندھ میں 15 سال تک مسلسل حکومت کی، 15 سال میں پیپلزپارٹی نے کیا کیا ہے؟ کیا سندھ میں تعلیم کا معیار بہتر ہوگیا ہے؟ کسی کے پاس بھی کارکردگی نہیں ہے، کارکردگی ہوتی تو ملک یہاں نہ ہوتا، یہ لوگ معیشت اور امن و امان کے حوالے سے کیا کریں گے۔
انتخابات کے حوالے سے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ الیکشن آئینی ذمہ داری ہیں، ہونا ہی چاہئیں، الیکشن کو بامقصد بنالیا جاتا تو بہتر تھا، الیکشن کے بعد انتشار ہی ہوگا، میرا نہیں خیال کہ کوئی جماعت اکثریت حاصل کرے گی، بائیکاٹ تو آخری وقت پر بھی ہوسکتا ہے، کسی نے بائیکاٹ کیا تو الیکشن مزید متنازع ہوجائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن نہ ہو تو پارلیمنٹ مفلوج ہوجاتی ہے، پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار آزاد نہیں ہوں گے، کچھ آزاد لوگ ہارس ٹریڈنگ کی نظر ہوجاتے ہیں، دباؤ کی باتیں ختم ہونا چاہئیں ورنہ الیکشن متنازع ہوجائیں گے، ایک پارٹی نظر نہ آئے تو دوسری پارٹی فائدہ اٹھاتی ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے یہ بھی کہا کہ ن لیگ نے اکثریت حاصل کی تو نوازشریف پھر وزیراعظم بن جائیں گے، مجھے مخلوط حکومت بنتی نظر آرہی ہے، پیپلزپارٹی ن لیگ سے نہ ملی تو آزاد لوگوں کی اہمیت بڑھ جائے گی، الیکشن سے پہلے ہوم ورک ہوجاتا تو بہتر تھا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سیاسی انتشار ہوگا تو ملک میں افراتفری بڑھے گی، ن لیگ آئی تو نوازشریف ہی وزیراعظم بنیں گے، آئی پی پی اور دیگرجماعتیں بھی میدان میں موجود ہیں، میں نے صرف موجودہ پارلیمان سے ریٹائرمنٹ لی ہے، نوازشریف کے لیے ہمیشہ سے نیک خواہشات ہیں۔