اسلام آباد نیشنل پریس کلب نے انتظامیہ کو درخواست دی ہے کہ دھرنے پر بیٹھے بلوچ مظاہرین کو پریس کلب کے سامنے سے ہٹا کر کسی اور جگہ منتقل کیا جائے۔ تاہم، نیشنل پریس کلب کو اپنی اس درخواست پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اب درخواست واپس لی جا رہی ہے۔
اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے منیجر کامران شاہد نے تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو خط لکھتے ہوئے بلوچ مظاہرین کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے سے ہٹانے اور دھرنے کو پریس کلب سے دور کسی اور جگہ منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پریس کلب نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کے احتجاج کے باعث پریس کلب کی سرگرمیاں معطل ہیں اور انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
پریس کلب انتظامیہ کی جانب سے پولیس کو لکھے گئے کے بعد صحافی برادری اور انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے اسلام آباد پریس کلب انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پریس کلب کے اس عمل کی مذمت کی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ پریس کلب اپنا نوٹس واپس لے کر بلوچ مظاہرین سے معافی مانگے۔
اس حوالے سے دی رائز نیوز کی چیف ایڈیٹر وینگاس نے لکھا کہ صحافی برادری کو نیشنل پریس کلب کی بلوچ مظاہرین کو ہٹانے کی درخواست کی مذمت کرنی چاہئے صحافت کو ریاست کا ترجمان نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ حق اور بے آواز کی آواز ہونی چاہیے، اب بھی ایسی آوازیں موجود ہیں جو سچائی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور انہیں بلوچ احتجاج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔
امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی احمد نورانی نے ماہ رنگ بلوچ کے ٹائم لائن سے پوسٹ شئر کرتے ہوئے لکھا کہ نیشنل پریس کلب کے عہدیداران کو آئی ایس آئی کا پریشر برداشت کرنا چاہیے، نیشنل پریس کلب کے عہدیداران اس لیٹر کو جاری کرنے سے پہلے خودکشی کر لیتے۔ اب بھی وقت ہے یہ درخواست واپس لیں اور پولیس کو سیکورٹی نارمل کرنے کا کہیں۔
خواتین کی تنظیم عورت مارچ اسلام آباد کے منتظمین نے اسلام آباد پریس کلب کی جانب سے انتظامیہ کو لکھے گئے درخواست کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے آج تمام اپنے کارکنان اور شہریوں کو پریس کلب پہنچنے کا کہا ہے۔
بلوچ صحافی علی جان مقصود نے اس حوالے سے لکھا ہے اسلام آباد پریس کلب کی جانب ایسے درخواست انتہائی شرمناک بات ہے۔ صحافتی اخلاقیات اور ذمہ داریوں پر بھروسہ کرنے کے علاوہ، ایسی درخواستیں داخل کرنا ملک کے ”سب سے بڑے پریس کلب“ کے لیے خاص طور پر، اور عام طور پر دیگر لوگوں کے لیے دکھ کی گھڑی ہے۔
لندن میں مقیم انسانی حقوق کے کارکن نور مریم کنور کا کہنا اسلام آباد پریس کلب ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی ترجمانی کرتی رہی ہے انہوں نے بتایا کہ، 2014 میں جب 70 سالہ ماما قدیر کی قیادت میں بلوچ خواتین اور بچوں کا لانگ مارچ اسلام آباد پریس کلب پہنچا تو مجھے یاد ہے کہ پریس کلب انتظامیہ نے انہیں اندر نہیں جانے دیا اور صحافیوں نے ان پر مضحکہ خیز سوالات کی بوچھاڑ کی۔
صحافی حامد میر نے لکھا کہ ایک روز قبل نیشنل پریس کلب میں آزادئ اظہار کے دفاع کے لئے میڈیا کی تنظیموں کا ایک اتحاد بنایا گیا اور آج بلوچ خواتین اور بچوں کے خلاف یہ درخواست دلا دی گئی اس درخواست نے صحافیوں کے اتحاد میں دراڑ ڈال دی ہے یہ درخواست پریس کلب کے شایان شان نہیں۔
اتنی تنقید کے بعد صحافی منیزے جہانگیر نے اطلاع دیتے ہوئے لکھا، ’مجھے یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ درخواست پریس کلب واپس لے رہا ہے جس کے اندر انہوں نے بلوچ مظاہرین کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کی استدعا کی تھی ہے۔ یہ خوش آئند ہے کیوں کہ اگر لوگ پریس کلب کے باہر احتجاج کا جمہوری حق استعمال نہیں کریں گے تو کہاں کریں گے۔