غزہ کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں اور دوسری طرف امریکا اور ایران تیزی سے جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
برطانوی جریدے ”دی اکنامسٹ“ نے خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد سے اب تک اسرائیل نے غزہ کے خلاف جو کچھ کیا ہے اس نے پورے خطے کو خطرناک صورتِ حال سے دوچار کیا ہے۔
شام، عراق اور یمن میں ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپو نے نے فلسطینیوں سے اظہارِ ہمدردی کے لیے اسرائیل اور اس کے حامیوں پر حملے تیز کردیے ہیں۔ یمن کے حوثی باغی اس معاملے میں سب سے آگے رہے ہیں۔
بحیرہ احمر میں تیل بردار اور مال بردار جہازوں کو نشانہ بناکر حوثی باغیوں نے عالمی تجارت کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ دنیا بھر کی بڑی تجارتی کمپنیوں نے مال کی ترسیل کے لیے متبادل آبی گزر گاہیں استعمال کرنا شروع کیا ہے جس کے نتیجے میں تیل اور عام مصنوعات کی ترسیل میں تاخیر سے عالمی معیشت متاثر ہو رہی ہے۔
جریدہ لکھتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی خواہش رہی ہے کہ اسرائیل جلد از جلد حماس کا مکمل خاتمہ کرکے جنگ جیت لے مگر ایسا ممکن نہیں ہو پارہا۔ ایران اور اس کے حامیوں کی طرف سے غیر معمولی مزاحمت کا سامنا ہے۔
شام اور عراق میں ایران کے حمایت یافتہ جنگجو یا عسکریت پسند گروپوں نے ساڑھے تین ماہ کے دوران امریکی فوج اور اس کی تنصیبات پر راکٹوں اور میزائلوں سے کم و بیش 140 حملے کیے ہیں۔
سب سے بڑا حملہ 20 جنوری کو مغربی عراق میں امریکی فوج کی الاسد بیس پر کیا گیا۔ بیشتر راکٹ اور میزائل امریکی پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم نے روک لیے تاہم چند ایک راکٹ بیس پر لگے جس کے نتیجے میں امریکی فوجی اور مقامی عراقی زخمی ہوئے۔
”دی اکنامسٹ“ مزید لکھتا ہے کہ ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یہ صورتِ حال امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے انتہائی پریشان کن ہے کیونکہ وہ اگلے صدارتی انتخاب کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔
اگر اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل نہ کی تو امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن مزید مضبوط ہوجائے گی۔