سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری رہ چکے اعظم خان نے سائفر کیس میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرا 161 اور 164 کا بیان حلف پر نہیں ہوا اور مجھے نہیں معلوم کہ ریلی میں لہرایا جانے والا صفحہ کون سا تھا۔
نجی ٹی وی کے مطابق سائفر کیس میں ایف آئی اے کی جانب سے بطور گواہ پیش کیے گئے سابق پرنسپل سیکریٹری اور پی ٹی آئی کے رہنما اعظم خان نے اڈیالہ جیل میں قائم آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت میں بیان دیا کہ مجھے نہیں معلوم ریلی میں لہرایا جانے والا صفحہ کیا تھا۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ تفتیشی افسر کے سامنے 161 کا بیان بغیر حلف اور 164 کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے بھی بغیر حلف کے ریکارڈ کیا گیا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ 161 اور 164 کے بیان پر دستخط ان کے ہی ہیں، تاہم، کہا کہ ریلی میں لہرائے جانے والے پرچے کا علم نہیں ہے، وہ پرچہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے نہ پڑھا اور نہ ہی کھولا تھا۔
اعظم خان نے عدالت میں دیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ میں نے نہیں جانتا وہ پیپر کیا تھا، جب عمران خان کو سائفر کی کاپی دی تو وہ پُرجوش ہو گئے تھے، اس کاپی میں ہمارے سفیر کی امریکی حکومت سے میٹنگ کی تفصیلات تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ’بانی پی ٹی نے کہا کہ امریکی حکام نے سائفر پیغام کے ذریعے بلنڈر کیا اور اندرونی عناصر کو اس کے ذریعے پیغام بھیجا ہے، سائفر کو اس وقت کے آرمی چیف اور اپوزیشن پارٹیز کے منتخب حکومت کی تبدیلی کے لیے اکٹھا ہونے پر ایکسپوز کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے‘۔
اعظم خان نے بیان میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ سائفر میں واضح طور پر عدم اعتماد کی تحریک کا ذکر ہے، بانی پی ٹی آئی نے کہا سائفر عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے، سابق وزیراعظم نے سائفر کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور کیا اور اسے مزید پڑھنے کے لیے اپنے پاس رکھ لیا تھا، پھر کچھ دنوں بعد میں نے پوچھا تو بانی پی ٹی آئی نے کہا سائفر گم ہو گیا ہے۔
انہوں نے عدالت میں بیان دیا کہ بانی پی ٹی آئی نے ملٹری سیکرٹری، اے ڈی سی اور ذاتی اسٹاف کو سائفر تلاش کرنے کی ہدایت کی، بانی پی ٹی آئی نے کہا وہ عوام کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں کہ کیسے ان کی حکومت کے خلاف سازش تیار ہوئی، میں نے بانی پی ٹی آئی کو بتایا کہ سائفر ڈی کوڈ دستاویز ہے وہ مخصوص الفاظ میں منکشف نہیں کیا جاسکتا۔
اعظم خان نے بتایا کہ میری تجویز پر بنی گالہ میں وزیراعظم کی زیر صدارت میٹنگ ہوئی، جس میں اُس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سیکرٹری خارجہ اور میں نے شرکت کی، جس میں سائفر ماسٹر کاپی سے پڑھا گیا۔
اعظم خان نے کہا کہ ’جہاں تک مجھے یاد پڑھتا ہے سائفر کا معاملہ مارچ کے آخری ہفتے میں وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا فیصلہ ہوا، جس کے بعد کابینہ نے اس معاملے کو قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا‘۔
انہوں نے بیان دیا کہ ’نیشنل سیکورٹی کمیٹی میٹنگ میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر متعلقہ ملک کو احتجاجی مراسلے دینے کا فیصلہ ہوا، سائفر کاپی ملنے کے بعد میرے خیال میں زیادہ سے زیادہ ایک سال میں واپس کرنا ضروری ہوتا ہے، جب تک میں پرنسپل سیکرٹری رہا تب تک سائفر کاپی واپس نہیں ہوئی تھی، بانی پی ٹی آئی نے کافی بار ملٹری سیکرٹری اور دیگر اسٹاف کو کاپی تلاش کرنے کی ہدایت کی اور یہ کام وہ دونوں کررہے تھے‘۔