پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو رواں مالی سال سرکاری ملازمین کی پینشن اور تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کی یقین دہانی کروادی ہے۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گیس کی قیمتوں میں ششماہی بنیادوں پر ردوبدل کرنے، ٹیکسٹائل اور لیدر سیکٹر پر سیلز ٹیکس بڑھانے اور چینی پر 5 روپے فی کلو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کو متعدد سیکٹرز میں سیلز ٹیکس، ایڈوانس انکم ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے۔
دستاویزات کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف کو کہا ہے کہ رواں مالی سال پینشن اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کریں گے، وفاقی ترقیاتی بجٹ میں ترجیحات بہتر بناکر 61 ارب روپے کی بچت بھی کی جائے گی۔ قدرتی آفات کے علاوہ کوئی سپلیمنٹری گرانٹ جاری نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف دستاویز کے مطابق حکومت نے کہا ہے کہ توانائی کی قیمتوں کو بروقت بڑھا کر سبسڈی کا بوجھ کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اگر ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل ہوتا ہوا نہ محسوس ہوا تو اقدامات اٹھائیں گے۔
دستاویزات کے مطابق ایف بی آر نے آئی ایم ایف کو کہا ہے کہ ریٹیلز، پراپرٹی، تعمیرات اور ڈیجیٹل مارکیٹس جیسے شعبوں سے پورا ٹیکس وصول کریں گے، اسی طرح ٹیکسٹائل اور لیدر کے شعبوں کیلئے سیلز ٹیکس پندرہ فیصد سے بڑھا کر اٹھارہ فیصد کریں گے، ماہانہ آٹھ ارب روپے وصولی کیلئے چینی پر پانچ روپے فی کلو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائیں گے اور مشینری کی درآمد، ایک فیصد، صنعتی خام مال کی درآمد پر ایک فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس لگائیں گے۔
مزید براں کنٹریکٹس، سروسز، سپلائی پر ایک فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس، کمرشل امپورٹرز پر بھی ایک فیصد ٹیکس عائد کریں گے اور نان فائلزر کو فائلز بنانے کیلئے ڈور ٹو ڈور مہم بھی شروع کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق نگران حکومت نے توانائی کے شعبے میں دو سال میں سبسڈی ختم کرنے کا پلان آئی ایم ایف کو دیدیا ہے۔
پنجاب، سندھ اور خٰبرپختونخوا میں ٹیوب ویلز پر حکومتی سبسڈی آئندہ مالی سال سے ختم کی جائے گی۔
دوسرے مرحلے میں ٹیوب ویلز پر ایک چوتھائی کراس سبسڈی ختم کرنے کا ارادہ ہے، بلوچستان میں بھی ٹیوب ویلز پر سبسڈی ختم کرنے کے مختلف آپشنز پر کام کیا جارہا ہے اور فرٹیلائزر سیکٹر کو گیس پر دی جانے والی کراس سبسڈی مارچ تک ختم کردی جائے گی۔
جبکہ ایکسپورٹ کو دی جانے والی کراس سبسڈی ختم کرکے نان ایکسپورٹ انڈسٹری کے برابر کی جائیں گی۔
دستاویزات میں مزید بتایا گیا کہ پاور جنریشن لاگت پورا کرانے کیلئے مقامی گیس اور درآمدی آر ایل این جی کی قیمتیں برابر کی جائیں گی۔
ڈسکوز کا انتظامی کنٹرول نجی شعبے کو دینے کیلئے ٹرانزیکشن ایڈوائزر اپریل تک تعینات ہوجائے گا، سب سے زیادہ نقصان کرنے والے پچیس سو فیڈرز پر آزادانہ مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال میں گیس کا سرکلر ڈیٹ چار سو اکیس ارب روپے اضافے سے دوہزا چوراسی ارب روپے ہوگیا ہے۔
گیس کی قیمتوں میں ششماہی بنیادوں پر ردروبدل کرنے کو فریم ورک پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا، اس کے لیے اوگرا پندرہ فروری تک گیس کی قیمتوں میں ردوبدل کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان میں معیشتی ڈھانچے کی اصلاح کے لیے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی مد میں دو اہم اقدامات تجویز کیے ہیں۔ پاکستان کو اندرونی قرضوں سے متعلق سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بہتر بنانا ہوگا۔ ساتھ یہ ساتھ گیس کے نرخوں کا ششماہی بنیاد پر جائزہ لینے سے متعلق دسمبر 2024 کے فیصلے کا نوتیفکیشن جاری کرنا ہوگا۔
آئی ایم ایف نے تازہ ترین کنٹری رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان کو دسمبر 2023 میں گیس کے نرخوں کے ششماہی بنیاد پر تعین سے متعلق فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری کرنا چاہیے۔
آئی ایم ایف کی کنٹری رپورٹ کے مطابق وسط اگست سے ستمبر کے اوائل تک زرِ مبادلہ کے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے فرق کے پریمیم سے متعلق بینچ مارک کا خیال نہیں رکھا گیا۔ پاکستان نے پانچ کاروباری دنوں کے دوران انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان 1.25 کے اوسط پریمیم کا بھی خیال نہیں رکھا۔ زرِ مبادلہ کی منڈی میں سٹہ بازی اور غیر قانونی لین دین برقرار رہا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی ملکیت کے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور ملکیت کی توضیح سے متعلق آئی ایم ایف کے بینچ مارک کا بھی مجموعی طور پر خیال نہیں رکھا گیا۔
نومبر کے آخر میں سرکاری ملکیت والے کاروباری اداروں کے انتظام و انصرام اور کارکردگی کا معیار کچھ بلند رہا۔ حکومت نے ان کاروباری اداروں سے متعلق قانون پر عمل کیا جس میں ملکیت اور کردار کا تعین کیا گیا ہے اور چار منتخب ریاستی ملکیتی کاروباری اداروں سے متعلق ایکٹ کی ترمیم سے متعلق پیش رفت ممکن بنائی گئی۔
آئی ایم ایف کی کنٹری رپورٹ کے مطابق پاکستان نے ستمبر کے آخر تک تین اہداف حاصل کیے۔ ایف بی آر نے ریونیو کا ہدف حاصل کیا، بجٹ میں تعلیم و صحت پر خاطر خواہ رقوم رکھی گئیں اور ٹیکس ریفنڈ کے واجبات سے متعلق سیلنگ کا خیال رکھا گیا۔ توانائی کے شعبے میں نجی اداروں کے انکم ٹیکس کے واجبات کا معاملہ بہت حد تک غیر حاصل شدہ ہدف رہا۔
وزارتِ خزانہ جو اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہی ان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، اسٹیٹ بینک کی سویپ، فارورڈ بک، اسٹیٹ بینک کے خالص ملکی وسائل، حکومت کا بجٹ کے لیے اسٹیٹ بینک سے ادھار لینا اور سرکاری ضمانتیں شامل ہیں۔