اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ سچ کو پنپنے دیا ہوتا تو پاکستان دولخت نہ ہوتا۔
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پاکستان کی آدھی تاریخ ڈکٹیٹر شپ میں گزری ہے، آغاز سے ہی آزادی صحافت پر قدغنیں لگی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ڈکٹیٹر شپ میں آزادی اظہار رائے ممکن ہی نہیں، اظہار رائے میں صحافیوں کا کلیدی کردار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جوابدہ ہیں، اظہار رائے کو بلند رکھنے کے لیے کوڑے بھی کھائے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی خاتون یا بچے کی شناخت ظاہر کرنا صحافی قواعد کے خلاف ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جج کو تنقید پر گھبرانا نہیں چاہیے، جج تنقید کا اثر لے تو یہ حلف کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ سچائی خود سامنے آجاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کو کبھی دبانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے،1971 میں مغربی پاکستان کے لوگوں کی یکسر الگ تصویر دکھائی گئی، سچ کو ہمیشہ دبانے کی کوشش کی گئی، سچ دباتے دباتے آج اس صورتحال پر پہنچے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں نے کبھی کسی کی پرواہ نہیں کی، بحیثت جج ہم پبلک پراپرٹی ہیں، ہمارے فیصلے خود سچ ثابت کریں گے، جھوٹ جتنا بھی بولاجائے آخرکار سچ سامنے آجاتا ہے، سچ کو پنپنے دیا ہوتا تو پاکستان دولخت نہ ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ اظہار رائے کو پہچانا ہوتا تو ملک دولخت نہ ہوتا اور نہ لیڈر پھانسی لگتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اظہار رائے ہوگا تو ہم عظیم قوم بن سکتے ہیں، معاشرہ مرضی کا فیصلہ اور مرضی کی گفتگو چاہتا ہے۔