ایرانی فوج کی طرف سے فضائی خلاف ورزی، پاکستانی حدود میں کارروائی اور ایرانی حدود میں پاکستانی فورسز کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے باوجود دوطرفہ تجارت کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہی ہے۔
حکام نے بتایا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف فضائی کارروائی کے باوجود پاکستان اور ایران نے سرحد بند نہیں کی۔
مکران کے کمشنر سعید احمد عمرانی نے بتایا ہے کہ تفتان، گوادر، کیچ، پنجگور اور واشک کے سرحدی قصبوں کے ذریعے دو طرفہ تجارت جاری رہی ہے۔ پانچ سرحدی اضلاع سے سرحد بند کیے جانے سے متعلق کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
تفتان میں پاکستانی کسٹم حکام نے بتایا کہ ان کے دفاتر کھلے ہوئے ہیں اور تجارتی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہی ہیں۔ جمعرات کو چاول، آلو اور دیگر بہت سی اشیائے خور و نوش اور دیگر سامان لے کر 100 ٹرک تفتان بارڈر کے ذریعے ایران گئے۔ دوسری طرف ایران سے ایل پی جی اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات پاکستان بھیجی گئیں۔
پنجگور کے ڈپٹی کمشنر ممتاز کھیتران کا کہنا ہے کہ چدگی بارڈر کے ذریعے ایران سے تجارت جاری ہے۔ بلوچستان کے علاقے پنجگور میں ایرانی حملے کے بعد پاکستان نے ایرانی بندر گاہ چا بہار سے 34 رکنی وفد کو واپس بلالیا تھا۔
ایران سے واپس بلائے جانے والے وفد میں کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر فدا حسین دشتی بھی شامل تھے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ پاکستانی وفد پنجگور میں ایرانی حملے سے قبل چا بہار پہنچ چکا تھا تاہم ایرانی حکام نے پہلے کی طرح گرم جوشی سے خیر مقدم نہیں کیا۔
ایرانی حکام نے کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عبداللہ اچکزئی سمیت وفد کے 5 ارکان کو ایران میں داخل نہیں ہونے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خفیہ اداروں نے ان پانچ شخصیات کے بارے میں منفی رپورٹ دی تھی۔ جب وفد کے دیگر ارکان نے احتجاج کرتے ہوئے مشترکہ بارڈر کمیٹی کی میٹنگ میں شرکت سے انکار کیا تو ایرانی حکام نے انہیں آنے کی اجازت دے دی۔
فدا حسین دشتی نے مزید بتایا کہ پاکستانی وفد کے 34 ارکان کے لیے ہوٹل کے صرف 9 کمرے بک کرائے گئے تھے۔ چا بہار میں موجود دوستوں کی مدد سے دیگر افراد کے لیے کمروں کا بندوبست کیا گیا۔ فدا حسین دشتی کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے جانے تھے جو ایرانی حملوں کے باعث نہ کیے جاسکے۔