ایک وقت تھا جب پاکستان میں انتخابات سے قبل تہوار کا سماں ہوا کرتا تھا، ہر طرف سیاسی جماعتوں کے رنگین جھنڈوں کی بہاریں ہوتی تھیں، گلی نکڑ پر میٹنگز ہوا کرتی تھیں، زور دار جلسے ہوا کرتے تھے، ریلیاں نکالی جاتی تھیں، لیکن اس بار انتخابات کے رنگ پھیکے نظر آ رہے ہیں۔
یہ دعویٰ ہے عرب خبر رساں ادارے ”الجزیرہ“ کا، جس نے پاکستانی انتخابات کی رنگینیوں کا ایک تجزیہ پیش کیا ہے۔
الجزیرہ نے راولپنڈی کے ایک رہائشی محمد اقرار کا حوالہ دیا جن کا کہنا تھا کہ ’انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، لیکن مجھے یاد نہیں کہ ہمارا علاقہ اس سے پہلے اتنا سنسان تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ یہاں مختلف امیدواروں کی طرف سے لگائے گئے اسپیکرز، بینرز، جھنڈے، موسیقی کی آوازیں آتی تھیں۔ … یہ ایک تہوار ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب، بہت خاموشی ہے’۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 8 فروری کو عام انتخابات کا میدان سجنے والا ہے، لیکن الجزیرہ نے اپنے تجزیہ میں دعویٰ کیا ہے کہ ایک جماعت کو انتخابی مہم سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، جبکہ ایک کو بھرپور موقع دیا جارہا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق ایک سیاسی جماعت کے محمد اقرار نامی کارکن نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پہلے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، گھر گھر جاکر ووٹ کی اپیل کرتے تھے، لیکن اب ایسا بالکل نہیں ہورہا۔
مقبول شریف طور نامی ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم غیر یقینی کا شکار ہیں کہ انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں گے یا نہیں، کیونکہ اس ہفتے کے شروع میں، ایران نے پاکستان پر میزائل داغے اور مبینہ طور پر ’دہشت گردوں‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کی اور ایرانی حدود میں کچھ نشانوں کو تباہ کیا۔
ان کے مطابق اس تناؤ نے اس بات پر غیر یقینی صورتِ حال کو مزید بڑھا دیا ہے کہ آیا انتخابات واقعی 8 فروری کو منصوبہ بندی کے مطابق ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک پارٹی کو مکمل طور پر ایک طرف کر دیا گیا ہے، مقابلہ کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے‘۔
ان کا کہناتھا کہ ’ہمیں انتخابی مہم کے دوران ”ہلہ گلہ“ پسند تھا، لیکن اب یہاں شاید ہی ایسا کچھ ہو رہا ہے‘۔
خیال رہے کہ انتخابات اصل میں نومبر میں شیڈول تھے، لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ اسے گزشتہ سال کی گئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی ازسرنو تشکیل کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
الجزیرہ کے مطابق راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری مصدق گھمن نے کہا کہ ان کی پارٹی کے خلاف ریاستی مقدمات نے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو مایوس کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے خلاف مقدمات کی وجہ سے ہمیں پتا بھی نہیں تھا کہ ہمیں الیکشن لڑنے دیا جائے گا یا نہیں، اور اب ہمارا لیڈر جیل میں ہے اور ہمارا نشان چھین لیا گیا ہے۔ ایسے ماحول میں انتخابی مہم کے لیے تیاری کرنا مشکل ہے‘۔
مصدق گھمن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کے مخالفین کی جانب سے کیے جانے والے جلسوں اور جلسوں کو عوام کی جانب سے خاموش ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
الجزیرہ نے لکھا کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات اور ای سی پی کی طرف سے بارہا یقین دہانیوں کے باوجود ووٹروں میں اس بات پر ”غیر یقینی صورتِ حال“ کی کیفیت پائی جاتی ہے کہ آیا ووٹنگ ہوگی یا مزید تاخیر ہوگی۔
کچھ لوگوں نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس تمام صورت حال کے باعث ووٹرز کا ٹرن آؤٹ انتہائی کم ہوسکتا ہے۔