شمالی عراق کے نیم خود مختار علاقے کردستان میں ایرانی حملے کے بعد عراق کی حکومت نے بھی تہران سے سفیر واپس بلالیا ہے۔
شمالی عراق میں بعض مقامات پر میزائل حملے کے بعد عراقی حکومت نے بھی ایران سے سفیر کو واپس بلالیا۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس حملے کا بنیادی مقصد اسرائیلی جاسوسوں کی طرف سے حملوں کی منصوبہ بندی کو ناکام بنانا تھا۔
ایران کے پاس دارانِ انقلاب نے بتایا ہے کہ انہوں نے منگل کو شمالی عراق کے نیم خود مختار علاقے کردستان میں اسرائیلی جاسوسوں کے ایک ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بھی حملہ کیا۔
ان حملوں سے مشرقِ وسطیٰ میں بحران مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔ لبنان، شام، عراق اور یمن میں ایران کے اتحادی اور حمایت یافتہ عناصر قضیے میں داخل ہو رہے ہیں۔
یہ خدشہ بھی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ ایران سے وابستہ گروپوں پر امریکا کے حملوں کے بعد عراق ایک بار پھربڑے علاقائی تنازع کا مرکز بن سکتا ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد سے امریکی اہداف پر متعدد حملوں کے بعد امریکی افواج نے تازہ کارروائیاں کی ہیں۔
عراق کے وزیر اعظم محمد شیاع السودانی کہتے ہیں کہ شمالی عراق میں ایرانی حملہ عراق کے خلاف واضح جارحیت ہے جس سے صورتِ حال خطرناک شکل اختیارکر رہی ہے۔ اس سے تہران اور بغداد کی دوستی اور پارٹنر شپ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
عراقی وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ایران کے خلاف تمام قانونی اور سفارتی اقدامات کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
عراقی حکومت نے تہران سے سفیر کو واپس بلانے کے ساتھ ساتھ بغداد میں ایران کے ناظم الامور کو بھی طلب کرکے احتجاج کیا ہے۔
کردستان کے دارالحکومت اربل میں امریکی قونصلیٹ کے نزدیک رہائشی علاقے پر حملے کو عراقی کردستان کے وزیر اعظم مسرور برزانی نے کرد عوام کے خلاف جرم قرار دیا تھا۔ اس حملے میں چار شہری جاں بحق اور 6 زخمی ہوئے تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں ایک بڑا کرد بزنس مین پیشرو درزائی اور اس کے خاندان کے افراد شامل تھے۔ ایک راکٹ ان کے گھر میں گرا۔
عراق کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر قاسم العراجی کہتے ہیں کہ اس مکان کے اسرائیل کے لیے جاسوسی کا مرکز ہونے کا ایرانی دعویٰ بے بنیاد ہے۔ ایران نے اسے اسرائیل کی مرکزی خفیہ ایجنسی موساد کا گڑھ قرار دیا تھا۔