سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر دوسرے روز سماعت ہو ئی جو شام 7 بجے کے بعد بھی جاری رہی، جس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
محفوظ فیصلہ جو ساڑھے 9 بجے سنایا جانا تھا تاہم اس میں تاخیر ہوگئی اور رات سوا 11 بجے کے بعد کیس کا محفوظ فیصلہ سنادیا گیا۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل تھیں، فیصلہ متفقہ طور پر سنایا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان بحال کرنے کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی اپیل کو منظور کرلیا، فیصلے کے تحت پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کی درخواست مسترد کردی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے ہر رکن کے برابر حقوق ہیں، سیاسی جماعتیں انٹراپارٹی الیکشن کرانے کی پابند ہیں، پاکستان جمہوری نظام کے تحت وجود میں آیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹراپارٹی انتخابات کرانےکا نوٹس 2021 میں کیا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022 تک انتخابات کرانے کا وقت دیا، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا کہا، بصورت دیگر انتخابی نشان لینے کا بتایا گیا، پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ 5 رکنی بینچ بنا جو زیر التوا ہے، پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابات کرا کر بھی لاہور ہائی کورٹ میں اپنی درخواست واپس نہیں لی۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہےکہ پشاور ہائیکورٹ نے 22 دسمبر تک پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن پر فیصلہ کرنے کو کہا، الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو کہا پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات درست نہیں کرائے، الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات درست نہ کرانے پر انتخابی نشان پی ٹی آئی سے لیا، لاہور ہائی کورٹ کے سنگل جج نے 3 جنوری کو فیصلہ دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی نے درخواست دائر کرتے ہوئے نہیں بتایا کہ ایسی ہی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں 5 رکنی بینچ کے سامنے زیر التوا ہے، ایک معاملہ ایک ہائیکورٹ میں زیر التوا ہو تو دوسری ہائی کورٹ میں نہیں چیلنج ہوسکتا، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا، عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 13جماعتوں کے انتخابی نشان لیے، الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کرائے، پی ٹی آئی کے14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائیکورٹ نے مسترد کی کہ وہ ممبران ہی نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی، ثابت نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات کرائے، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو انٹراپارٹی انتخابات کرانا ہوتے ہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو نہیں بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کہاں کرا رہے ہیں، پشاور ہائیکورٹ کا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کو برا کہنا ان کے سامنے درخواست سے تجاوز تھا۔
پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر نے اپنے ردعمل میں کہا کہ پارٹی کے امیدوار آزاد لڑیں گے جب کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کی جائے گی۔
تاہم یہ فیصلہ ایسے وقت پر آیا جب انتخابی نشانات الاٹ کرنے کا کام مکمل ہو چکا تھا۔