پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان نے ٹکٹ نہ ملنے پر شکوہ کرنے والے کارکنوں کو کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کس کو ٹکٹ ملا کس کو نہیں، زبانی کلامی کیسے فیصلہ کرسکتا ہوں۔
کمرہ عدالت میں سابق وزیراعظم عمران خان نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب کی جانب سے جھوٹ بولا جاتا ہے کہ القادر ٹرسٹ کی زمین میری ہے، میرے دیے گئے نوٹس وکلاء سے لے لیے جاتے ہیں، میں پارٹی ہیڈ ہوں میرے نکات کو میڈیا تک جانے سے روکا جاتا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ نواز شریف کو 45 سال سے جانتا ہوں، نواز شریف ہمیشہ اپنے 2 امپائر کھڑے کر کے میچ کھیلتا تھا، نواز شریف گارنٹی لے کر واپس آیا، اس کے کیس ختم ہوں گے اور میں جیل میں ہوں گا، نواز شریف کی واپسی لندن پلان کا حصہ ہے۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ مجھے رجیم چینج ایکسپوز کرنے کی سزا دی جا رہی ہے، باجوہ نے کیسز کے حوالے سے پہلے ہی بتا دیا تھا، کہا گیا تھا کہ اگر خاموش نہ ہوئے تو 30 سیٹوں تک محدود کر دیا جائے گا، کوئی بھی ملک قانون کی بالادستی کے بغیر نہیں چل سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف شہباز شریف سرٹیفائیڈ منی لانڈرر ہیں، آصف زرداری اور نواز شریف نے توشہ خانہ سے گاڑیاں لیں اور وہ سب معاف ہوگئی۔
ٹکٹوں کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ ٹکٹوں کے معاملے پر بیرسٹر گوہر کے ساتھ سرسری مشاورت ہوئی، جس دن ٹکٹوں پر مشاورت کرنی تھی اس دن بیرسٹر گوہر کو اندر نہیں آنے دیا گیا، جنہوں نے پریس کانفرنس کی انہیں ٹکٹ نہیں دے سکتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالتوں کو نظر نہیں آرہا کہ کیا یہ لیول پلینگ فیلڈ ہے، 18 ماہ سے کہہ رہا ہوں مذاکرات کرو لیکن کوئی مذاکرات نہیں ہوئے، سپریم کورٹ کے ججز کا استعفیٰ تشویش ناک ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف کو پاناما میں پکڑا گیا تھا، نواز شریف کے خلاف جے آئی ٹی بنی اور ڈیڑھ سال بعد سزا ہوئی، مجھے توشہ خانہ میں سزا ہوئی جو معطل ہو گئی، سائفر میں میری ضمانت ہو چکی ہے۔
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ کوشش ہو رہی ہے کہ پی ٹی آئی کو بلا نہ ملے، جو مرضی کر لیں عوام کے سمندر کو نہیں روکا جا سکتا، فوج میں ایک آدمی کا فیصلہ ہوتا ہے، میں نے ساڑھے تین سال ان کے ساتھ کام کیا مجھے سب پتہ ہے۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دلدل سے نکالنے کے لیے فری اینڈ فیئر الیکشن ضروری ہیں، 2018 میں ہماری نشستیں کم کر کے ہمیں پھنسایا گیا، آر ٹی ایس نظام بیٹھنے سے ہمیں نقصان ہوا، غیر ملکی جریدے میں لکھا گیا آرٹیکل وکیلوں کو زبانی بتایا تھا۔
پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس: چیف جسٹس کی نیاز اللہ نیازی سے تلخ کلامی،علی ظفر کی معذرت
پی ٹی آئی انتخابی نشان اور پارٹی الیکشن کیس: ’الیکشن کمیشن کا فیصلہغیرقانونی ہے
دوسری جانب احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے توشہ خانہ کیس کی اڈیالہ جیل میں اوپن ٹرائل سماعت کی۔
عدالت نے توشہ خانہ کیس میں مزید 5 گواہوں کے بیانات قلمبند کر لیے جبکہ مجموعی طور پر اب تک 9 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جاچکے ہیں۔
توشہ خانہ کیس کی آئندہ سماعت پرمزید گوہان کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے، میڈیا کے علاوہ پبلک کو بھی سماعت میں جانے کی اجازت دی گئی۔
عدالت نے مزید گواہوں کو طلبی کے سمن جاری کرتے ہوئے سماعت 15 جنوری تک ملتوی کر دی۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کارکنوں نے بانی پی آئی عمران خان سے ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے شکایات کیں۔
کارکنوں نے شکوہ کیا کہ این اے 57 میں خصوصی نشست پر نامزد امیدوار جنرل سیٹ پر بھی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ این اے 57 سے انجینیئر افتخار نے بانی پی ٹی آئی سے ٹکٹ نہ ملنے کا شکوہ کیا۔
پی ٹی آئی تحصیل ٹیکسلا کے صدر علی خان اپنے خلاف 16 مقدمات کے اندراج کے بارے میں آگاہ کیا جبکہ این اے 105 سے آئے کارکن نے عمران خان سے شکوہ کیا کہ مجھے ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھاکہ مجھے ٹکٹوں کے بارے میں مشاورت کی اجازت نہیں دی گئی، مجھے نہیں معلوم کس کو ٹکٹ ملا کس کو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ساڑھے 8 سو ٹکٹوں کے بارے زبانی کلامی کیسے فیصلہ کرسکتا ہوں؟
خیال رہے کہ گزشتہ روز ہی پاکستان تحریک انصاف نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔