کسی بھی جنگ کے دوران زمینی حملے بھی ہوتے ہیں اورفضائی بھی۔ فضائی حملوں کو محفوظ ترین تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں جانی نقصان کا امکان کم ہوتا ہے۔
ایک بڑا فضائی حملہ کتنے مالیاتی وسائل ڈکار جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہر ایک کے نزدیک مختلف ہوگا۔
یوکرین کے فوجی حکام نے مختلف ذرائع سے ملنے والی معلومات اور جانی و مالی نقصان کے تجزیے کی بنیاد پر بتاہا ہے کہ روسی فوج نے 2 جنوری کو یوکرین کی سرزمین پر صرف ایک فضائی حملے میں کم و بیش 50 کروڑ ڈالر (140 ارب پاکستانی روپے) کے مساوی ہتھیار پھونک ڈالے۔ اس حملے میں روسی فوج نے کئی طرح کے میزائل اور ڈرون استعمال کیے۔ ان میں ایران کے تیار کردہ شاہد ڈرونز اور اسٹریٹجک بمبار بھی شامل تھے۔
پہلی یلغار میں 35 شاہد 136 اور شاہد 131 ٹاپ کے ڈرونز استعمال کیے گئے۔ Kh-101، Kh-555 اور Kh-55 ٹائپ کے 70 میزائل داغے گئے۔ یہ میزائل روس کے Tu-95MS اسٹریٹجک بمبار طیاروں نے داغے۔
یہ شاید کافی نہیں سمجھا گیا۔ روس کے Mig-31K فائٹر جیٹس نے Kh-74M2 قسم کے 10 میزائل داغے۔ 3 Kalibr میزائل سمندر سے فائر کیے گئے۔ روس کے Su-35 ٹیکٹیکل جیٹس نے 12 اسکندر ایم ایس میزائل اور 4 Kh-31P راڈار شکن میزائل داغے۔
معروف جریدے فوربس نے بتایا ہے کہ ایک کیلیبز میزائل 6.5 ملین ڈالر کا اور ایک Kh-101 میزائل ایک کروڑ ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا ہوتا ہے۔ ایک اسکندر میزائل 30 لاکھ ڈالر کا ہے۔ ایک Kh-55 میزائل 20 لاکھ ڈالر کا جبکہ ایک Kh-555 میزائل میزائل 40 لاکھ ڈالر کا ہوتا ہے۔ ایران ک ایک شاہد ڈرون تقریباً 50 ہزار ڈالر کا ہے۔
روسی حملے میں استعمال ہونے والا سب سے مہنگا میزائل Kh-17 ڈیگر تھا۔ ایسا ایک میزائل ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا ہے۔ روس نے 2 جنوری کو یوکرین پر حملے میں تقریباً 62 کروڑ ڈالر خرچ کیے۔
فوربس نے ایک اور رپورٹ میں بتایا کہ ماسکو نے 29 دسمبر کے حملے میں 70 سے 75 کروڑ ڈالر کا اسلحہ پھونک ڈالا تھا۔