بحیرہ احمر اور یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے خلاف امریکی فوج کی جوابی کارروائیوں نے کانگریس میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔
دونوں پڑی جماعتوں کے ارکان نے ان حملوں کے لیے کانگریس سے منظوری نہ لینے پر صدر جو بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
امریکی کانگریس کے ارکان کا کہنا ہے کہ حوثی ملیشیا کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے اجازت کا نہ لیا جانا کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔
یمن میں حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں پر جوابی حملوں کے لیے کانگریس سے اجازت نہ لیے جانے پر ہنگامہ آرائی نے امریکا میں ایک پرانی بحث کو زندہ کردیا ہے۔ ایک زمانے سے امریکا میں اس نکتے پر بحث ہوتی رہی ہے کہ جنگ شروع کرنے کا اختیار ایوانِ صدر کے پاس ہونا چاہیے یا کانگریس کے۔
صدر جوزف بائیڈن نے یمنی ملیشیا کے خلاف کارروائی کا حکم دے کربتادیا ہے کہ امریکا میں جنگ شروع کرنے کا اختیار صدر کو حاصل ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے ارکان کا کہنا ہے کہ جنگ جیسے انتہائی اہم معاملے مین فیصلے کا حتمی اختیار کانگریس کو حاصل ہے۔
امریکی صدر نے جمعرات کی شب بتایا تھا کہ امریکا اور برطانیہ نے آسٹریلیا، کینیڈا، ہالینڈ اور بحرین کی مدد سے یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے ایک درجن سے زائد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ کارروائی بحیرہ احمر میں متعدد تجارتی جہازوں پر حوثی ملیشیا کے حملوں کے جواب میں کی گئی ہے۔
کانگریس کی رکن پرمیلا جیہ پال نے کہا ہے کہ صدر کی طرف سے جنگ شروع کرنے کا فیصلہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل ون کے تحت جنگی کارروائیوں کے لیے کانگریس سے اجازت لینا لازم ہے۔
صدر بائیڈن نے کانگریس میں 36 سال گزارے ہیں۔ اس دوران انہوں نے کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کی سربراہی بھی کی۔ حوثی ملیشیا کے خلاف کارروائی کے لیے انہوں نے کانگریس کو مطلع ضرور کیا تاہم اس سے اجازت طلب نہیں کی۔
امریکی کانگریس کے متعدد ارکان نے حوثی ملیشیا کے خلاف کارروائی کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایران کے خلاف ردِ جارحیت کا ایک معقول طریقہ ہے۔